کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 457
ابو الفتح محمد بن حسین الحافظ نے کہا: ’’نصر بن مزاحم اپنے (شیعہ) مذہب میں غالی ہے۔ اپنی حدیث میں قابل تعریف نہیں ۔‘‘[1]
ابراہیم بن یعقوب جوزجانی نے کہا: ’’ نصر بن مزاحم العطار حق سے پھر جانے والا متعصب شخص تھا۔‘‘[2]
خطیب بغدادی نے درج بالا عبارت کی شرح میں لکھا: ’’میں کہتا ہوں : اس کی مراد شیعیت میں غلو ہے۔‘‘[3]
صالح بن محمد نے کہا: ’’نصر بن مزاحم ضعفاء سے منکر احادیث روایت کرتا ہے۔‘‘[4]
عقیلی نے کہا: ’’یہ شیعہ تھا اس کی روایات میں اضطراب اور بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں ۔‘‘[5]
ابو خیثمہ نے کہا: ’’یہ کذاب تھا۔‘‘[6]
ابو حاتم نے کہا: ’’اس کی روایات کمزور ہوتی ہیں ، وہ متروک ہے۔‘‘[7]
عجلی نے کہا: ’’یہ غالی رافضی تھا .... نہ یہ ثقہ ہے اور نہ یہ قابل اعتماد ہے۔‘‘[8]
امام ابن حجر اور امام ذہبی نے اس کے بارے میں کہا: ’’یہ غالی رافضی ہے۔ محدثین نے اسے متروک کر دیا۔‘‘[9]
یاقوت حموی[10] نے کہا: ’’نصر بن مزاحم ابو الفضل منقری، کوفی تاریخ اور روایات کا عالم تھا۔ غالی اور کٹر
[1] تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، ج ۱۳، ص: ۲۸۴۔
[2] احوال الرجال، ص: ۱۳۲۔
[3] تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، ج ۱۳، ص: ۲۸۴۔
[4] ایضاً۔
[5] الضعفاء، ج ۴، ص: ۳۰۰۔
[6] الضعفاء و المتروکون لابن الجوزی، ج ۳، ص: ۱۶۰۔
[7] الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، ج ۸، ص: ۴۶۸۔
[8] لسان المیزان لابن حجر، ج ۶، ص: ۱۵۷۔
[9] میزان الاعتدال للذہبی، ج ۴، ص: ۲۵۳۔۲۵۴۔ لسان المیزان لابن حجر، ج ۶، ص: ۱۵۷۔
[10] یاقوت بن عبداللہ ابو عبداللہ اصل میں رومی تھا۔ بچپن میں قیدی بنا تو ایک حموی تاجر عسکر نامی نے اسے خرید لیا، جب بڑا ہوا تو نحو اور لغت کے علوم پر عبور حاصل کر لیا۔ جبکہ اس کا مالک تجارت میں اسے مشغول رکھتا۔ اس کی تصنیفات میں سے ’’معجم الادباء‘‘ اور ’’معجم البلدان‘‘ ہیں ۔ ۶۲۶ ہجری میں وفات پائی۔ (تاریخ الاسلام للذہبی، ج ۴۵، ص: ۲۶۶۔ شذرات الذہب لابن العماد، ج ۵، ص: ۱۲۰۔)