کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 456
(۱)اس روایت کا راوی سیف بن عمر اسدی تمیمی ہے۔ اس کے بارے میں یحییٰ بن معین نے کہا: ’’ضعیف ہے۔‘‘[1]
دوسری بار کہا: ’’ایک ٹکا (یعنی سب سے کم قیمت سکّہ) اس سے بہتر ہے۔‘‘[2]
امام ابو حاتم نے کہا: ’’اس کی حدیث متروک ہے۔‘‘[3]
امام ابو داود رحمہ اللہ نے کہا: ’’یہ کچھ بھی نہیں ۔‘‘[4]
امام نسائی[5] رحمہ اللہ نے کہا: ’’ضعیف ہے۔‘‘[6]
امام ابن حبان[7] نے کہا: ’’سیف ثقہ مشائخ کی طرف نسبت کر کے موضوع روایات لاتا ہے اور سیف احادیث وضع کرتا تھا۔ نیز اس پر زندیق ہونے کی تہمت بھی ہے۔‘‘[8]
دار قطنی نے کہا: ’’یہ متروک ہے۔‘‘[9]
(۲)اس حدیث کا ایک راوی نصر بن مزاحم العطار ہے جس کی کنیت ابوالفضل المنقری الکوفی ہے۔ بغداد میں رہا۔
امام دارقطنی نے اسے ’’ضعفاء و متروکین‘‘ میں شمار کیا۔[10]
[1] تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری، ج ۳، ص: ۴۵۹۔
[2] الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، ج ۴، ص: ۵۰۷۔
[3] الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، ج ۴، ص: ۲۷۸۔
[4] سوالات الآجری لابی داؤد، ج ۱، ص: ۲۱۴۔
[5] الضعفاء و المتروکون، ص: ۵۰۔
[6] احمد بن شعیب بن علی ابو عبدالرحمن نسائی۔ امام، حافظ، مشہور نقاد حدیث ہے اور علوم حدیث میں عبور تام حاصل کیا۔ ۲۱۵ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علو اسناد ان کا امتیاز ہے۔ ان کی تصنیفات میں سے ’’السنن‘‘ اور ’’الخصائص‘‘ مشہور و متداول ہیں ۔ ۳۰۳ ہجری میں وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۴، ص: ۱۲۵۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۱، ص: ۲۷۔)
[7] محمد بن حبان بن احمد ابو حاتم البُستی، حافظ، مجود، خراسان کے عالم، فقیہ دین، حافظ آثار، صاحب التصانیف ہیں ، سمرقند وغیرہ کے قاضی رہے۔ طب، علم نجوم اور فنون علم پر عبور حاصل تھا۔ ان کی تصنیفات میں سے ’’صحیح ابن حبان‘‘ اور ’’کتاب الثقات‘‘ مشہور ہیں ۔ ۳۵۴ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۶، ص: ۹۴۔ شذرات الذہب لابن العماد القیروانی، ج ۳، ص: ۱۶۔)
[8] المجروحین لابن حبان، ج ۱، ص: ۳۴۶۔
[9] سوالات البرقانی، ص: ۳۴۔
[10] الضعفاء و المتروکون، ج ۳، ص: ۱۳۴۔