کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 454
اس حدیث سے کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں :
۱۔انسان کو اپنی موت قریب ہونے کا احساس ہو جاتا ہے لیکن یہ کہانت کے بل بوتے پر نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری و مسلم میں حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل ہر سال مجھے قرآن سناتا تھا اور اس سال اس نے مجھے دو بار قرآن سنایا اور میں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ میری موت کا وقت آ چکا ہے۔‘‘[1]
اور یہ توجیہ ۔اللہ بہتر جانتا ہے۔ دیگر توجیہات سے زیادہ بہتر ہے۔[2]
حافظ یوسف بن عبدالہادی[3] نے اس شبہ کو ایک اور طریقہ سے ردّ کیا ہے ۔ اس نے کہا: اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کے بارے میں کہا کہ وہ علم غیب نہیں جانتے تو انھیں عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا علم کیسے ہو گیا؟ تو کہا جائے گا: آسمان کی خبریں چوری کر کے انھیں یہ بات معلوم ہوئی کیونکہ وہ آسمان سے خبریں چراتے ہیں اور جو باتیں فرشتے کرتے ہیں وہ کانا پھوسی کے ذریعے سے ان کی سن گن لے لیتے ہیں تو ممکن ہے انھیں اس طریقے سے پتا چل گیا ہو۔[4]
رافضی اس شبہ کے ذریعے سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی تکذیب کرنا چاہتے ہیں اور اس کی روایات کو مشکوک بنانا چاہتے ہیں ۔
چوتھا بہتان:
شیعہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتی تھیں اور وہ کہتی تھیں تم اس لمبی داڑھی والے بوڑھے احمق[5]کو مار ڈالو۔
[1] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۶۲۴۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۵۰۔ و اللّٰہ اعلم۔
[2] الانوار الکاشفۃ لمافی کتاب اضواء علی السنۃ من الزلل و التضلیل و المجازفۃ للمعلمی، ص: ۱۱۳۔ اس مسئلے میں اس کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا۔
[3] یوسف بن حسن بن احمد صالحی جو ابن المبرد کی کنیت سے زیادہ شہرت رکھتا ہے۔ حنبلی فقہ کا پیروکار، علامہ اور متقن تھا۔ ۸۴۰ ہجری میں پیدا ہوا۔ علم حدیث و فقہ اس پر غالب تھا۔ متعدد تصنیفات اپنے پیچھے چھوڑیں ۔ جیسے ’’النہایۃ فی اتصال الروایۃ‘‘ اور ’’الجواہر المنضد‘‘۔ ۹۰۹ ہجری میں وفات پائی۔ (شذرات الذہب لابن العماد، ج ۸، ص: ۴۲۔ الاعلام للزرکلی، ج ۸، ص: ۲۵۵۔)
[4] محض الصواب فی فضائل امیر المومنین عمر بن خطاب لابن المبرد الحنبلی، ج ۳، ص: ۸۰۲۔
[5] نعثل: ایک لمبی داڑھی والے مصری کا نام تھا۔ لغوی طور پر بوڑھے احمق اور نر بجو کو کہتے ہیں ۔ (غریب الحدیث لابی عبید، ج ۳، ص: ۴۲۶۔ الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری، ج ۴، ص: ۵۲۔ النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۵، ص: ۷۹۔)