کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 452
بواسطہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند پر مبنی ہے۔ جبکہ اسے ابن شبہ نے تاریخ مدینہ میں [1] اور ابن الاثیر نے اسد الغابہ میں روایت کیا۔ [2] عبدالملک بن عمیر مشہور مدلس ہے۔ امام دارقطنی اور ابن حبان نے اس کا یہی عیب بیان کیا۔ اس نے یہاں حدیث سننے کی صراحت نہیں کی۔[3] پھر یہ بات بھی ہے کہ اس کی روایت میں اضطراب ہے۔ کبھی تو بواسطہ عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی اور کبھی صقر بن عبداللہ سے اس نے عروہ سے اور اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔[4] امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اس کی حدیث میں بہت زیادہ اضطراب ہوتا ہے اور اس کی روایات بھی کم ہوتی ہیں ۔[5] چنانچہ ان الفاظ کے ساتھ روایت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں فاکہی[6] وغیرہ نے لکھا ہے[7] اس روایت کو حافظ وغیرہ نے ’’الاصابۃ‘‘ میں صحیح کہا۔ اس کی یہ بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن وہاں ان الفاظ کے ساتھ نہیں ۔ ۳۔یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے حقیقت میں جنات کو دیکھا ہے۔ تاہم جنات کا انسانی صورت میں تبدیل ہو جانا قرآن سے ثابت ہے اور حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ ﴾ (الانفال: ۴۸) ’’اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دئیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں
[1] تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، ج ۳، ص: ۸۷۴۔ [2] اسد الغابۃ لابن الاثیر، ج ۴، ص: ۱۵۶۔ [3] تعریف اہل تقدیس لابن حجر، ص: ۴۱۔ [4] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبدالبر، ج ۳، ص: ۱۱۵۸۔ [5] تہذیب الکلمال للمزی، ج ۱۸، ص: ۳۷۳۔ [6] محمد بن اسحق ابو عبداللہ مکی فاکہی۔ اہل مکہ کا مورخ تھا اور ازرقی کا ہم عصر تھا۔ اس کے بعد فوت ہوا اس کی تصانیف میں سے ’’تاریخ مکہ‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ ۲۷۲ ہجری میں وفات پائی۔ (الاعلام للزرکلی، ج ۶، ص: ۲۸۔ ہدیۃ العارفین لاسماعیل باشا، ج ۶، ص: ۲۰۔) [7] اخبار مکہ، ج ۴، ص: ۷۶۔