کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 451
ہیں ، ان کے ذریعے وہ عمر کا مرثیہ کہہ رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ مزرّد[1] کے ہیں ۔ نیزایک قول یہ بھی ہے کہ یہ اشعار شماخ[2] کے بھائی جزء بن ضرار[3] کے ہیں ۔ [4]
ابیات کی نسبت میں کتب ادب و تاریخ میں اختلاف مشہور ہے، حتیٰ کہ کوئی بھی یہ تعین نہیں کر سکتا کہ ان ابیات میں کسے مخاطب کیا گیا ہے؟ کیونکہ شعر کہنے والے کے بارے میں اختلاف ہے۔[5] عمر کے مرثیے میں ان کی شہادت کے بعد یہ اشعار کہے جانے کی دلیل یہ ہے کہ شاعر نے اپنے اشعار کے دوران کہا:
عَلَیْکَ سَلَامٌ مِنْ اَمِیْر وَ بَارَکْتَ
یَدُ اللّٰہِ فِی ذَاکَ الْاَدِیْم الْمُمَزَّقِ
’’تجھ پر امیر کا سلام و برکتیں ہوں ، اس کٹے پھٹے آسمان کے نیچے جس پر اللہ کا ہاتھ ہو۔‘‘
چنانچہ عربوں کی عادت ہے کہ ’’وہ مرثیہ میں میت کی ضمیر کو پہلے لاتے ہیں اور زندہ کے نام کی تصریح دعا وغیرہ میں پہلے کرتے ہیں ۔‘‘[6]
اگر کہا جائے کہ ’’یہ اشعار شماخ کے ہیں اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کا مرثیہ پڑھ رہا ہے جیسا کہ متعدد نقاد نے کہا تو اشکال سرے سے ختم ہو جائے گا۔
۲۔اس حدیث کی سند کہ ’’جنات نے نوحہ کیا‘‘ کے اثبات کا دار و مدار عبدالملک بن عمیر بواسطہ عروہ،
[1] مزرد بن ضرار بن حرملہ غطفانی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یزید تھا، لیکن اس کا لقب اس کے نام پر غالب آ گیا۔ جاہلی شاعر اور مشہور شہسوار تھا۔ بڑھاپے میں اسلام پایا تو اسلام قبول کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں اشعار کہے۔ ۱۰ ہجری میں وفات پائی۔ (الاصابۃ لابن حجر، ج ۶، ص: ۸۵۔ الاعلام للزرکلی، ج ۷، ص: ۲۱۱۔)
[2] شماخ بن ضرار بن حرملہ ابو سعید مازنی، ذبیانی، غطفانی۔ مشہور شاعر تھا۔ جاہلیت اور اسلام کے زمانے پائے۔ اسلام قبول کیا اور اپنے اسلام کو احسن طریقہ کے ساتھ نبھایا۔ جنگ قادسیہ میں شامل ہوا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تقریباً ۲۲ ہجری میں غزوہ موقان میں وفات پائی۔ (الاصابۃ لابن حجر، ج ۳، ص: ۳۵۳۔ الاعلام للزرکلی، ج ۳، ص: ۱۷۵۔)
[3] جزء بن ضرار بن حرملہ غطفانی۔ مشہور شاعر ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے دیکھنے کی وجہ سے مخضرم کہلاتا ہے۔ ان اشعار کے ذریعے اس نے عمر کا مرثیہ کہا۔ (الوافی بالوفیات للصفدی، ج ۴، ص: ۱۲۔ طبقات فحول الشعراء للجمحی، ج ۱، ص: ۱۳۳۔)
[4] تلقیح فہوم اصل الاثر لابن الجوزی، ص: ۷۷
[5] اشعار کی نسبت معلوم کرنے کے لیے دیکھیں : ’’لجام الاقلام‘‘ لابی تراب ظاہری، ص: ۲۳۹۔
[6] اتحاف الزائر و اطراف المقیم للسائر لابی الیمن بن عساکر، ص: ۸۶۔