کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 450
ابو حیان اندلسی مفسر نے کہا: ’’یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح نہیں ۔‘‘[1] تیسرا بہتان: شیعہ کہتے ہیں : عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی کہ عمر کی وفات سے پہلے جنات نے ان پر نوحہ کیا۔ ’’احادیث ام المومنین عائشۃ‘‘ نامی کتاب کے مصنف نے تحریر کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بے شک جنات نے عمر کی وفات سے تین دن قبل عمر رضی اللہ عنہ کا نوحہ پڑھا اور جنات نے کہا: أَبْعَدَ قَتِیْلُ فِی الْمَدِیْنَۃِ أَظْلَمَتْ لَہُ الْاَرْضُ تَہْتَزُّ الْعَضَاہُ بِأَسْوَقِ ’’کیا مدینہ کے مقتول کے بعد اس کے لیے زمین پر اندھیرا چھا گیا پنڈلیوں [2] تک کانٹے بکھرے[3] ہوئے تھے۔‘‘ پھر صاحب کتاب عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسی روایت مروی ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات ابھارنے میں لگ گیا جس کا مقصد جنات کو عالم الغیب بتلانا مقصود ہو بھلا وہ کیسے روایت کر سکتی ہیں ۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنات کیسے دیکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات کے بجائے صرف عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث کیوں روایت کی؟ حالانکہ تمام بیویاں اور ہزاروں لوگ حج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے؟‘‘[4] اس شبہے کا ازالہ: اس رافضی کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا جھوٹ ثابت کرے تاکہ ان کی روایات ساقط ہو جائیں اور ان کی ثقاہت مشکوک ہو جائے ۔ اس کے پیچھے یہی مقصد ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی چاہت سے اپنے موافق احادیث گھڑ لیتی تھیں ۔ تاہم اس کلام کا پانچ مختلف وجوہ سے مختصر طور پر ردّ کیا جاتا ہے: ۱۔نقاد نے شعروں کی نسبت میں اختلاف کیا ہے کہ یہ کس کے ہیں ؟ کچھ نے کہا: یہ شماخ نامی شاعر کے
[1] البحر المحیط، ج ۳، ص: ۳۹۵۔۳۹۶۔ رسالۃ ’’امنا عائشۃ ملکۃ عفاف لشحاتہ محمد صقر‘‘ غیر مطبوع مقالہ ہے۔ [2] اسوق: اس کا واحد ساق ہے۔ پنڈلی کو کہتے ہیں ۔ (تاج العروس للزبیدی، ج ۲۵، ص: ۴۸۲۔) [3] العضاۃ: ہر وہ بڑا درخت جس کے اوپر کانٹے ہوں ۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۳، ص: ۲۵۵۔ [4] احادیث ام المومنین لمرتضی عسکری، ج ۱، ص: ۹۵۔۹۸۔