کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 448
تو انھوں نے فرمایا: ’’اے میرے بھانجے یہ کاتبین کی غلطیاں ہیں انھوں نے کتابت غلط کی۔‘‘[1]
درج بالا شبہے کا ازالہ:
اس اثر کی سند میں ابن حمید راوی ہے۔ اس کا پورا نام و نسب محمد بن حمید بن حیان التمیمی، الحافظ ابو عبداللہ الرازی ہے۔ متعدد محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔ بلکہ کذب بیانی کی تہمت بھی اس کے اوپر ہے۔ یعقوب بن شیبہ نے کہا: محمد بن حمید کثرت سے منکر روایات لاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا: اس کی حدیث میں چھان پھٹک واجب ہے۔
امام نسائی نے لکھا: ’’یہ ثقہ نہیں ۔‘‘
جوزجانی نے لکھا:’’ یہ مذہب میں ردی اور غیر ثقہ ہے۔‘‘
فضل اللہ رازی نے کہا: ’’میرے پاس ابن حمید کی پچاس ہزار بیان کردہ احادیث ہیں ان میں سے میں ایک حرف بھی کسی کو نہیں بتاتا۔‘‘
اسحاق بن منصور کوسج نے کہا: ’’ہمارے لیے محمد بن حمید نے سلمہ سے لی ہوئی کتاب المغازی پڑھی تو فیصلہ ہوا کہ میں علی بن مہران کے پاس جا کر تحقیق کروں ۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ بھی سلمہ سے سنی ہوئی کتاب ’’المغازی‘‘ پڑھ رہا ہے۔ میں نے کہا: ہمیں یہ کتاب محمد بن حمید نے سلمہ کے حوالے سے سنائی تو علی بن مہران حیران ہو کر کہنے لگا: محمد بن حمید نے یہ کتاب مجھ سے سنی ہے۔‘‘
صالح بن محمد اسدی نے کہا: ’’جو روایت بھی اسے سفیان سے پہنچی ہوتی اسے وہ مہران کی نسبت سے سناتا اور جو روایت اسے منصور سے ملتی اسے وہ عمرو بن ابی قیس کی طرف منسوب کر دیتا۔ ‘‘
اس نے ایک اور جگہ کہا: ’’میں نے دو راویوں سے زیادہ جھوٹ میں ماہر شخص نہیں دیکھا۔ ایک سلیمان شاذ کونی ہے اور دوسرا محمد بن حمید ہے۔ اسے اپنی ساری احادیث یاد تھیں۔‘‘
ابو زرعہ[2]کے بھتیجے ابو القاسم نے کہا: ’’ میں نے ابوزرعہ سے محمد بن حمید کے بارے میں پوچھا تو اس
[1] السنن لسعید بن منصور، ج ۴، ص: ۱۵۰۷۔ تفسیر طبری، ج ۹، ص: ۳۹۵۔ فضائل القرآن للقاسم بن سلام: ۲۸۷۔ صادق العلائی شیعہ نے اپنی کتاب ’’اعلام الخلف بمن قال بتحریف القرآن میں من السلف، ص: ۶۴۳‘‘ پر طبری کی اسناد کو صحیح کہا اور یہ اس کی طرف سے تدلیس ہے۔
[2] عبیداللہ بن عبدالکریم بن یزید ابو زرعہ رازی۔ سیّد الحفاظ تھا۔ ۲۰۰ ہجری میں پیدا ہوا۔ دنیا میں حدیث کا امام تھا۔ اسے دین، ورع اور حصول علم پر دوام حاصل تھا اور دنیا سے بے رغبت تھا۔ اس کی مشہور تصنیف ’’اجوبۃ ابی زرعۃ الرازی علی سوالات البرذعی‘‘ ہے۔ ۲۶۴ ہجری میں وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۳، ص: ۶۵۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۴، ص: ۲۲۔)