کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 428
صحیح بخاری کی ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں جو انھوں نے محمد بن حنفیہ[1] (جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے) سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین کون ہے؟ انھوں نے کہا، ابوبکر، میں نے کہا: پھر کون؟ انھوں نے کہا، پھر عمر، (بقول راوی) میں ڈر گیا (اگر اب میں نے پوچھا تو وہ کہیں گے عثمان) سو میں نے کہا: پھر آپ ہیں ؟ میرے والد نے کہا: میں تو ایک عام مسلمان ہوں ۔[2] اسی طرح عبداللہ بن احمد[3]کی وہ حدیث جو اس نے ’’زوائد المسند‘‘ میں روایت کی ہے۔ اس نے حسن بن زید بن حسن بن ابی طالب کی سند سے روایت کی کہ مجھے میرے باپ نے بواسطہ اپنے باپ اس نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تو ابوبکر و عمر رضی ا للہ عنہما وہاں آ گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! یہ دونوں جنت میں انبیاء و مرسلین کے بعد تمام جوانوں اور پختہ عمر[4] کے اہل جنت کے سردار ہیں ۔[5]
[1] محمد بن علی بن ابی طالب ابو القاسم قریشی، ہاشمی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخر میں یا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں پیدا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے دیگر افراد کی طرح یہ بھی عالم و فاضل تھا۔ علم و ورع میں بے مثال تھا اور اس کی اکثر روایات سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تک متصل السند ہیں ۔ یہ بہت بہادر شخص تھا ۔ جنگ صفین کے دن اپنے باپ کا جھنڈا اس نے اٹھایا۔ ۷۳ ہجری کے بعد وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۴، ص: ۱۱۰۔ تہذیب التہذیب لابن حجر رحمہ اللہ، ج ۵، ص: ۲۲۳۔) [2] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۶۷۱۔ [3] عبداللہ بن امام احمد بن حنبل ابو عبدالرحمن شیبانی ۲۱۳ ہجری میں پیدا ہوا۔ اپنے وقت میں محدث بغداد کے لقب سے مشہور تھا۔ امام و حافظ حدیث، رواۃ پر نقد و تعدیل کا عالم حازق تھا۔ اپنے والد گرامی سے لاتعداد احادیث روایت کی ہیں ۔ جن میں سے ’’مسند احمد بن حنبل مکمل اور امام احمد ہی کی تصنیف ’’الزہد‘‘ اسی سے مروی ہے اور ان دونوں کتابوں میں عبداللہ بن احمد نے اپنی سنی ہوئی متعدد روایات شامل کی ہیں ۔ ۲۹۰ ہجری میں وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۳، ص: ۵۱۶۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۳، ص: ۹۵۔) [4] اسے عبداللہ بن احمد نے مسند، ج ۱، ص ۸۰، حدیث نمبر: ۶۰۲ پر روایت کیا اور احمد شاکر نے المسند کی تحقیق کرتے ہوئے اس روایت کی اسناد کو صحیح کہا۔ ج ۲، ص: ۳۸ اور البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ج ۲، ص: ۳۲۳ پر اس کی سند کو حسن کہا۔ [5] لسان العرب، ج ۱۱، ص: ۶۰۰ پر ابن منظور نے لکھا: الصحاح میں ہے کہ الکہل ان مردوں پر بولا جاتا ہے جو تیس برس اپنی عمر کے پورے کر کے آگے بڑھنا شروع ہو جائیں اور ابن الاثیر نے النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، ج ۴، ص: ۲۱۳ پر لکھا: مردوں میں سے ’’الکہل‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی عمر کے تیس برس پورے کر کے چالیسویں سال کی طرف بڑھ رہا ہو۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں ’’الکہل‘‘ سے مراد اصحاب حلم و وقار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اہل جنت کو ایسی حالت میں لے جائے گا کہ وہ پختہ عقل والے اور حلماء تجربہ کار بن کر جائیں گے۔