کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 425
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہیں جن میں سے کچھ روایات گزشتہ صفحات کتاب پر نقل ہو چکی ہیں ۔[1]جو سیّدہ عائشہ اور سیّدہ فاطمہ رضی ا للہ عنہما کی باہمی محبت کی بہت مضبوط دلیل ہیں ۔
ایک معاصر شیعی مصنف جعفر ہادی[2]نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’السیدۃ فاطمۃ الزہراء علی لسان عائشۃ زوجۃ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ ہے، یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سیّدہ فاطمہ زہرا کے مناقب مصنف نے اس کتاب میں چالیس کے لگ بھگ احادیث جمع کی ہیں جو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت میں ہیں اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔
جب عائشہ رضی اللہ عنہا رافضیوں کے بقول سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتی تھیں تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فضائل پر مشتمل احادیث کیوں روایت کرتی ہیں اور ان احادیث کو صرف سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی کیوں روایت کیا۔
لہٰذا حق وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیتے ہیں ۔ سبحان اللہ! جب شر نرا شر ہو تو مستقبل قریب میں وہ ضرور فنا ہو کر رہے گا۔
جس طرح عربی کہاوت ہے: ((من فمک ادینک)) میں تیری زبان کی تصدیق کرتا ہوں اور اعتراف ہی تمام دلیلوں کی سردار ہے۔ چنانچہ رافضیوں نے اپنے دعویٰ کے خلاف خود ہی گواہی دی ہے۔
چوتھا بہتان:
روافض کا کہنا کہ ’’فاطمہ کی موت سے عائشہ کو ناقابل بیان خوشی حاصل ہوئی۔‘‘ یہ باطل کلام ابن ابی الحدید کا ہے۔[3]
ابو یعقوب یوسف بن اسماعیل لمعانی[4] سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس جملہ کو رافضی بکثرت حجت بناتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کلام نہایت ہی بودا ہے۔ نہ تو روایات اس کی تائید کرتی ہیں اور نہ عقل اسے تسلیم کرتی ہے بلکہ خود روافض کا کلام بھی اس کی موافقت نہیں کرتا۔
علاوہ ازیں یہ کلام اسناد کے بغیر مروی ہے۔ مثلاً لمعانی نے لکھا: اور وہ اصل میں اس مزعومہ کینے پر
[1] جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
[2] جعفر ہادی موجودہ زمانے کا ایک شیعی مصنف ہے۔
[3] شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید، ص: ۹۷۶۔۹۷۹۔
[4] یوسف بن اسماعیل بن عبدالرحمن ابو یعقوب لمعانی بغداد میں ایک حنفی عالم گزرا ہے۔ حدیث کی سماعت سے فارغ ہوا تو جامع مسجد سلطان میں درس و تدریس کی ذمہ داری لے لی۔ اصول میں یہ معتزلی تھا اور فروعات اور علم مناظرہ میں اس نے مہارت حاصل کر لی۔ ۶۰۶ ہجری میں وفات پائی۔ (البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۱۳، ص: ۵۳۔)