کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 419
لیے اپنے کمرے میں اس کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنانے کی اجازت دے دی تھی اور ان کے نزدیک اس واقعہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی منقبت ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ ابو الفرج اصبہانی[1] اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے: کہ حسن بن علی نے عائشہ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اپنے دفن ہونے کی اجازت کے لیے قاصد بھیجا۔ اس نے کہا: ہاں مجھے منظور ہے، میرے کمرہ میں صرف ایک قبر کی جگہ باقی تھی جب بنو امیہ کو اس بات کا پتا چلا تو وہ اسلحہ سے لیس ہو کر بنو ہاشم کے ساتھ لڑنے پر تیار ہو گئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی دفن نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات جب حسن کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے اہل خانہ کی طرف پیغام بھیجا: جب ان کی طرف سے اس سلوک کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو مجھے وہاں دفن ہونے کی تمنا نہیں ہے۔ لہٰذا تم مجھے میری اپنی امی جان فاطمہ( رضی اللہ عنہا ) کے پہلو میں دفن کر دینا۔ چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں ان کی امی جان فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔[2] ابو الفرج اصبہانی لکھتا ہے: ’’یحییٰ بن حسن نے کہا: میں نے علی بن طاہر بن زید کو کہتے ہوئے سنا: جب لوگوں نے حسن کو دفنانے کا ارادہ کیا تو عائشہ خچر پر سوار ہو کر آ گئی اور بنو امیہ کے مروان بن حکم اور وہاں پر موجود لوگوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا اور وہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ یہ کہتے ہوئے آیا کہ کبھی خچر پر اور کبھی اونٹ پر سوار ہو کر۔‘‘[3] ابن ابی الحدید اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: میں کہتا ہوں : یحییٰ بن حسن کی روایت میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی وجہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مواخذہ کیا جائے۔ کیونکہ اس کی روایت میں یہ بات نہیں کہ جب وہ خچر پر سوار ہو کر آئیں تو لوگوں کو برانگیختہ کیا، کیونکہ شور شرابا اور احتجاج کرنے والے لوگ بنو امیہ سے تھے اور یہ احتمال بھی ہے کہ عائشہ خچر پر سوار ہو کر فتنہ ختم کرانے کے لیے آئی ہوں ۔ خصوصاً جب ان سے دفنانے کی اجازت طلب کی گئی تو انھوں نے اجازت دے دی۔ جب حقیقت حال اس طرح ہے تو یہ واقعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کا ثبوت ہے۔[4]
[1] علی بن حسین بن محمد ابو الفرج اصبہانی۔ ۲۸۴ ہجری میں پیدا ہوا۔ بہت بڑا ادیب اور مصنف تھا۔ ماہر انساب، قصہ گو اور شاعر تھا۔ اعلانیہ شیعہ تھا۔ مہلبی وزیر کا ہم مجلس تھا۔ اس کی مشہور تصنیفات ’’الاغانی‘‘ اور ’’جمہرۃ الانساب‘‘ ہیں ۔ ۳۵۸ ہجری میں وفات پائی۔ (تاریخ الاسلام للذہبی، ج ۲۶، ص: ۱۴۴۔ النجوم الزاہرۃ لتغری بردی، ج ۴، ص: ۱۵۔ [2] مقاتل الطالبیـین لابی الفرج اصبہانی، ج ۱، ص: ۸۲۔ [3] مقاتل الطالبیـین لابی الفرج اصبہانی، ج ۱، ص: ۸۲۔ [4] شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۶، ص: ۵۱۔