کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 418
موجود ہے۔[1] لیکن صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے کمرے میں اس کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنانے کی ممانعت اور ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا زین رکھے ہوئے خچر پر سوار ہونے اور سب سے پہلی مسلمان عورت کا شرف اسے ملنے وغیرہ جیسے لغویات رافضیوں کی بہتان تراشی اور احادیث وضع کرنے کی عمدہ مثال ہیں ، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا شخص ایسی روایات کو دیکھ اور سن کر فوراً ایسے شر و فساد سے اللہ کی پناہ چاہے گا۔[2] اس روایت کے متن پر نقد کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جائے گا کہ اس روایت میں ایک منکر و زائد جملہ بھی ہے اور وہ ہے رافضیوں کا یہ دعویٰ کہ سب سے پہلے زین پر مسلمانوں میں سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے سواری کی اور یہ قول شیعہ و اہل سنت دونوں کا مخالف ہے۔ یہ سرے سے جھوٹا دعویٰ ہونے کے باوجود شیعہ کی اپنی کتابوں میں اس جملے پر نقد و جرح موجود ہے۔ چنانچہ ان کی روایات میں اس قسم کے جملے بھی موجود ہیں کہ سیّدہ فاطمہ الزہرا اپنی رخصتی والے دن خچر پر سوار ہوئیں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انھیں گدھے پر سوار کرایا اور مہاجروں اور انصار کے گھروں پر انھیں گھمایا[3] اور رافضیوں کے دعویٰ کے مطابق جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے بیعت کی گئی تو یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔[4] لہٰذا ان تمام روایات کے بعد روافض یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں کہ سب سے پہلے عائشہ خچر اور زین پر سوار ہوئی۔[5] ۲۔بعض عقلمند اور دانشور اہل تشیع نے یہ بات تاکیداً کہی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے
[1] الاستیعاب فی معرفۃ اصحاب لابن عبدالبر، ج ۱، ص: ۳۷۶۔ [2] الصاعقۃ فی نسف اباطیل و افتراء ات الشیعۃ لعبد القادر عطا صوفی، ص: ۱۴۱۔ [3] کشف الغمۃ للاربلی، ج ۱، ص: ۳۶۸۔ [4] السقیفۃ لسلیم بن قیس، ص: ۸۱۔ الاحتجاج للطبرسی، ص: ۸۱۔۸۲۔ شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید، ج ۶، ص: ۱۳۔ منار الہدی لعلی البحرانی، ص: ۲۰۰۔ البرہان للبحرانی، ج ۳، ص: ۴۳۔ الزام الناصب للحائری، ج ۲، ص: ۲۶۹۔ سیرۃ الائمۃ اثنا عشر لہاشم المعروف حسینی، ج ۱، ص: ۱۲۴۔۱۲۶۔ [5] الصاعقۃ فی نسف اباطیل و افتراء ات الشیعۃ لعبد القادر عطا صوفی، ص: ۱۴۱۔