کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 414
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’شعبہ رحمہ اللہ اس کے بارے میں بری رائے رکھتا تھا۔‘‘ امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا: ’’یہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ اور دوسرے مقام پر انھوں نے کہا: ’’یہ ثقہ نہیں ہے اور نہ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔‘‘ ابو احمد بن عدی نے کہا: ’’عموماً اس کی احادیث کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور یہ اس کے ضعف کی واضح علامت ہے۔‘‘[1] بلکہ شیعہ بذات خود سلیم بن قیس کی کتاب کو ضعیف کہتے ہیں اور اس سے یہ کتاب جس نے روایت کی ہے وہ اسے بھی ضعیف کہتے ہیں اور وہ ابان بن عیاش ہے۔ تفریشی نے کہا: ’’یہ مشہور کتاب اس کی طرف منسوب کی جاتی ہے، حالانکہ ہمارے ائمہ کہتے تھے کہ سلیم غیر معروف ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم مجھے اس کی کتاب کے علاوہ دیگر مصادر میں اس کا تذکرہ مل گیا۔ البتہ بلاشک اس کی کتاب موضوع ہے۔‘‘[2] ابن الغضائری نے کہا: ’’یہ (ابان بن عیاش) ضعیف ہے، توجہ کے قابل نہیں اور ہمارے علماء سلیم بن قیس کی طرف منسوب کتاب کو وضع کرنے کی نسبت اس (ابان بن عیاش) کی طرف کرتے ہیں ۔‘‘[3] ٭٭٭
[1] تہذیب الکلمال للمزی، ج ۲، ص: ۲۰۔ [2] نقد الرجال للتفریشی، ج ۲، ص: ۳۵۵۔ [3] رجال ابن الغضائری، ج ۱، ص: ۳۶۔ لیکن کتنے ہی رافضی اور شیعہ ہیں کہ اس کتاب کو مرجع کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس کتاب میں اصحابِ رسول کے بارے میں بدزبانی اور فحش کلامی کی حد کر دی گئی ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے: علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے عربی محاضرات جو کہ انٹر نیٹ پر آسانی سے دستیاب ہیں ۔