کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 412
(یعنی اسلامی اشعار، اور جنگی فتوحات و شہداء کے کارنامے بیان کرنا) جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں کے ساتھ نرمی، رحمت اور شفقت کی یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا: ’’عیدوں اور خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار کرنا دین کا شعار ہے۔‘‘[1] بلکہ یہ فتنہ پرور فسادی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی (نعوذباللہ) جھوٹ بولتی تھیں اور وہ دلیل کے طور پر ایک حدیث بیان کرتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو کلب کی ایک عورت سے منگنی کا ارادہ کیا اور عائشہ کو اسے دیکھنے کے لیے بھیجا، وہ گئیں پھر واپس آ گئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے کیا دیکھا؟ انھوں نے کہا: مجھے آپ کا اس کے ساتھ شادی کرنے کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یوں مخاطب کیا: تجھے میرا اس کے ساتھ شادی کا مقصد بخوبی سمجھ آ گیا ہے۔ تم نے جونہی اس کے رخسار پر تل[2] دیکھا تو تمھارے بدن کے سارے بال کھڑے ہو گئے۔ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ سے راز کی کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔[3] اس کی سند میں جابر جعفی شیعی ہے جو ضعیف ہے اور دوسرے راوی عبدالرحمن بن سابط نے اسے مرسل روایت کیا۔فضیلۃ الشیخ محدث دوراں علامہ ناصر الدین البانی[4] رحمہ اللہ نے لکھا: یہ روایت ابن سعد[5] نے ’’الطبقات‘‘ میں نقل کی .... جو کہ موضوع یعنی من گھڑت اور جھوٹی روایت ہے۔
[1] فتح الباری لابن حجر رحمہ اللہ، ج ۲، ص: ۴۴۳۔ [2] الخال: جسم پر تل کو کہتے ہیں ۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۲، ص: ۹۴۔) [3] اسے ابن سعد نے الطبقات، ج ۸، ص: ۱۶۰ پر نقل کیا اور تاریخ بغداد، ج ۱، ص: ۳۰۱ پر خطیب بغدادی نے اور وہاں سے تاریخ دمشق، ج ۵۱، ص: ۳۶ پر ابن عساکر نے نقل کیا۔ امام ابن القطان رحمہ اللہ نے لکھا: یہ روایت صحیح نہیں ۔ احکام النظر، ص: ۳۹۶۔ [4] محمد ناصر الدین بن نوح نجاتی ابن آدم، اپنے ملک البانیہ کی نسبت سے البانی مشہور ہوئے۔ موجودہ زمانے کے بہت بڑے محدث، رجال الحدیث کے مشہور نقاد اور نمایاں عالم تھے اور اس کی تدریس و تصنیف انھوں نے بڑے صبر آزما طریقہ سے سرانجام دی۔ مالی طور پر بہت سخی اور غریبوں ، مسکینوں اور طلاب علم پر خرچ کرنے والے تھے۔ ۱۳۳۲ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۴۲۰ ہجری میں وفات پائی۔ انھوں نے گراں قدر متعدد تصانیف اپنے پیچھے چھوڑی ہیں جو ان کے لیے رہتی دنیا تک صدقہ جاریہ اور آخرت کے لیے بیش بہا اجر و ثواب کا خزینہ ثابت ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔ ان میں سے ’’سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ‘‘ زیادہ مشہور و متداول ہیں ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی، محدث العصر و ناصر السنۃ لابراہیم محمد علی اور حیاۃ الالبانی و آثار و ثناء العلماء علیہ لمحمد بن ابراہیم الشیبانی۔) [5] محمد بن سعد بن منیع ابو عبداللہ بصری زہری علامہ، حجت اور حدیث کے مشہور ترین حافظ تھے۔ یہ واقدی کے کاتب تھے۔ ان کی تصنیفات میں سے ’’الطبقات الکبری‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ ۲۳۰ ہجری میں وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۰، ص: ۶۶۴۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۵، ص: ۱۱۸۔)