کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 408
((اَلسَّلَامُ عَلٰی اَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ، یَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَ الْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ)) [1]
’’اہل ایمان و اہل اسلام کے گھر والوں پر سلامتی ہو اور اللہ ہم سے پہلے جانے والوں اور بعد میں جانے والوں پر رحم کرے اور بے شک ہم بھی اگر اللہ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ۔‘‘
اس قسم کی احادیث میں سے وہ حدیث بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات میں سے ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونے کا تذکرہ ہے اور اس حدیث کی وجہ سے شیعہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن و تشنیع کی ہے۔
مفصل روایت، شیعوں کا اعتراض اور اس کا مفصل و مدلل جواب:
وہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں موجود ہے۔[2]
تاہم بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ حدیث میں قطعاً ایسی کوئی دلیل نہیں جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو۔ چونکہ وہ بھی ان دیگر مصائب و آزمائشوں کی طرح ایک مصیبت اور ایک بہت بڑی آزمائش تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی تھیں ۔ جیسا کہ غزوۂ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم
[1] اس روایت کی تخریج گزر چکی ہے۔
[2] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۵۷۶۳۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۱۸۹۔ بخاری کی روایت کے یہ الفاظ ہیں : بنو زریق کے ایک آدمی جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال آتا کہ آپ نے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہوتا۔ یہاں تک ایک دن یا رات کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے، اور لیکن آپ مسلسل دعا کر رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے؟ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی جو میں نے اللہ سے پوچھی تھی۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اس آدمی کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پہلے نے کہا: اس پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ پہلے نہ پوچھا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی اور بالوں میں اور نر کھجور کے خشک گابھے میں ۔ پہلے نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ دوسرے نے کہا: وہ چاہ ذروان میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ ان کھجوروں کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور فرمایا: اے عائشہ! اس کنویں کا پانی گویا مہندی کی طرح سرخ ہے یا اس کی کھجوروں کے گابھے شیطانوں کے سروں کی مانند تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے نکالا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دے دی تو میں نے ناپسند کیا کہ میں اس معاملہ پر لوگوں کو اس کے خلاف شدید ابھاروں ۔ لہٰذا میں نے اسے دفن کرنے کا حکم دے دیا۔