کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 405
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنے کا انداز یاد آ گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا: اے اللہ! یہ تو ہالہ ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : مجھے غیرت آ گئی۔ چنانچہ میں نے کہا: آپ قریش کی سرخ باچھوں والی ایک بوڑھی عورت کی یاد میں کیوں گھلے جاتے ہیں زمانہ ہوا وہ فوت ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے آپ کو اس سے اچھی نعمتیں دے دیں ۔‘‘[1]
اسی طرح کی ایک روایت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں :
((مَا غِرْتُ عَلَی امْرَأَۃٍ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَی خَدِیجَۃَ ہَلَکَتْ قَبْلَ أَنْ یَتَزَوَّجَنِی لِمَا کُنْتُ أَسْمَعُہُ یَذْکُرُہَا وَأَمَرَہُ اللّٰہُ أَنْ یُبَشِّرَہَا بِبَیْتٍ مِنْ قَصَبٍ وَإِنْ کَانَ لَیَذْبَحُ الشَّاۃَ فَیُہْدِی فِی خَلَائِلِہَا مِنْہَا مَا یَسَعُہُنَّ۔))
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی پر اتنی غیرت نہیں کھائی جتنی غیرت میں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں محسوس کی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ شادی ہونے سے پہلے وہ فوت ہو گئیں ۔ اس لیے کہ میں آپ کو ہر وقت انھیں یاد کرتے ہوئے دیکھتی اور سنتی، اور آپ کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ انھیں جنت میں ان کے لیے موتی کے ایک گھر کی خوشخبری دے دیں اور اگر آپ بکری ذبح کرتے تو ان کی ان سہیلیوں تک گوشت کا تحفہ ضرور بھیجتے جن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسائی ہوتی۔
چنانچہ میں اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتی گویا دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور عورت ہے ہی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
((إِنَّہَا کَانَتْ وَکَانَتْ ، وَکَانَ لِی مِنْہَا وَلَدٌ)) [2]
[1] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔
[2] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۸۱۶۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۳۴۔امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’سب سے زیادہ تعجب انگیز بات یہی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک ایسی بوڑھی عورت کی نسبت سے غیرت محسوس ہوتی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی سے چند سال پہلے فوت ہو چکی تھیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد بیویاں دے کر اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مشارکت کے ذریعہ اسے غیرت سے بچایا۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے اس خاص لطف و عنایت کا ادنیٰ نمونہ ہے جو اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے۔ تاکہ ان کے حسن معاشرت میں کجی نہ پیدا ہو جائے اور شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی محبت کے ذریعہ ان کی غیرت کے معاملہ کو کم کیا۔ پس اللہ تعالیٰ اس پر اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی رہے۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۶۵۔)