کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 403
درج بالا دونوں اقتباسات سے ہمیں قوی احتمال ملتا ہے کہ جس رافضی کو معمر رحمہ اللہ اپنی کتابیں دے دیتا تھا اسی نے زیر بحث حدیث وضع کی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے ہماری امی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عیب جوئی کر سکے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زہری رحمہ اللہ جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت کو بخوبی جانتا ہے وہ اسے بنوہاشم کے بارے میں عیب جوئی کرنے والی کے طور پر کیسے بیان کر سکتا ہے جو دوسرے مقام پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یوں رقمطراز ہے: اگر تمام عورتوں کے علم کے مقابلے میں ایک عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم اکٹھا کیا جائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب کے علوم سے افضل ہو گا۔[1]
۳۔شیعہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کو صدق کے ساتھ متصف کرتی ہیں ۔ مجلسی نے ابو نعیم سے روایت کی اس نے اپنی سند کے ساتھ ابو عبداللہ جدلی سے بیان کیا کہ میں عائشہ( رضی اللہ عنہا ) کے پاس گیا اور اس سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا تو ام سلمہ( رضی اللہ عنہا ) کے پاس چلا جا۔ پھر میں ام سلمہ( رضی اللہ عنہا ) کے پاس گیا اور اسے عائشہ( رضی اللہ عنہا ) کی بات کے بارے میں بتایا تو ام سلمہ نے کہا وہ سچی ہے یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے گھر میں نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان دونوں کے دونوں بیٹوں کو کون میرے پاس لائے گا .... طویل حدیث ہے۔[2]
جب یہ گواہی ام المؤمنین سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہے جو شیعہ کے نزدیک بھی شاہد عدل ہے بلکہ وہ شیعہ کے نزدیک اہل بیت سے ہے تو اس نے اپنی بہن سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عدالت، ثقاہت اور صدق کا فیصلہ کیا ہے اور یہ سب کچھ اس روایت میں ہے جسے روافض نے خود روایت کیا اور اسے وہ حجت مانتے ہیں تو پھر وہ اسماء کی تعدیل و تحکیم سے کیوں رک جاتے ہیں ؟
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صدق کے اس قدر دلائل ہیں کہ ان کا لقب ہی صدیقہ رضی اللہ عنہا پڑ گیا اور وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک لائق مدح و ثنا ہیں ۔ ان کے صدق کے اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ انھوں نے ایسی روایات بھی روایت کی ہیں جن میں ان کی اپنی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے اور وہ احادیث بھی روایت کی ہیں جن میں حق ان کے مدمقابل کو ملتا ہے۔ ایسی احادیث میں سے حدیث ’’مغافیر‘‘ (گوند پینے والی)
[1] سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۸۵۔
[2] بحار الانوار للمجلسی، ج ۳۵، ص: ۲۲۸۔ مرأۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول للمجلسی، ج ۳، ص: ۲۴۰۔