کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 402
ہوئے کہا مجھے یہ پسند نہیں کہ ایسی احادیث لکھی جائیں ۔[1]
چونکہ امام احمد نے ان احادیث کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو بلاشبہ یہ روایت مکذوب و موضوع ہے۔ دشمنان دین نے عقیل کی طرف ان کی نسبت کی ہے اور یہ عقیل بن خالد ایلی ہے۔ جبکہ یہ روایت (مصنف عبدالرزاق) میں نہیں ہے۔ گویا جس نے یہ جھوٹ نقل کیا اس سے بھول ہو گئی اور عقیل کے بدلے عبدالرزاق لکھ دیا۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی دوسرے عبدالرزاق نے یہ روایت کی ہے تو اس کا جواب امام ذہبی اور ابن حجرL کی تحریروں میں مل سکتا ہے۔ جب ان دونوں اماموں نے احمد بن ازہر نیشاپوری کے حالات لکھے تو ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا: (ائمہ جرح و تعدیل نے) اس پر کوئی جرح نہ کی سوائے اس روایت کی وجہ سے جو اس نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں عبدالرزاق بواسطہ معمر نقل کی ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ یہ روایت باطل ہے۔
ابو حامد شرقی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’اس روایت کو باطل کہنے کا سبب یہ ہے کہ معمر رحمہ اللہ کا ایک بھانجا یا بھتیجا رافضی تھا تو اس نے یہ حدیث اس کی کتابوں میں شامل کر دی اور خود معمر رحمہ اللہ کی شخصیت اتنی رعب دار تھی کہ کوئی ان سے پوچھنے پر قادر نہ تھا۔ جب پہلی بار کتاب سے عبدالرزاق نے یہ روایت سنی تو بقول ذہبی؛ عبدالرزاق روایات اور رواۃ کے معاملات کو سمجھتے تھے۔ پس یہ اثر احمد بن ازہر کے علاوہ کوئی بھی بیان کرنے کی جسارت نہ کر سکا.... انتہٰی‘‘[2]
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ باطل روایت نقل کرنے کے بعد کہا:
’’اس کے باطل ہونے کا سبب یہ ہے کہ معمر کا ایک بھتیجا رافضی تھا اور معمر اسے اپنی کتابیں پڑھنے کے لیے دے دیتا تھا۔ تو اس نے یہ حدیث معمر کی کتابوں میں ملا دی۔ جبکہ عبدالرزاق کہ جس کی طرف یہ روایت منسوب کی گئی ہے وہ اہل صدق سے ہے اور اسے اہل تشیع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ شاید اسے یہاں مشابہ لگ گیا ہو....انتہٰی‘‘[3]
[1] اسے ابوبکر خلال نے ’’السنۃ‘‘ میں روایت کیا، ج ۳، ص ۵۰۵، حدیث نمبر: ۸۰۹۔
[2] میزان الاعتدال للذہبی، ج ۱، ص: ۸۲۔
[3] تہذیب التہذیب، ج ۱، ص: ۱۱۔