کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 401
راوی نے تقیہ کرتے ہوئے عائشہ کا نام نہیں لیا۔ جس طرح کہ فضل بن شاذان ازدی[1] نے کہا:
’’میں کہتا ہوں کہ عورت سے مراد ظاہر ہے لیکن راوی نے بطور تقیہ اس کا نام نہیں لیا۔‘‘[2]
ہم اسے جواب دیتے ہیں : تو نے اچھی بات کہی لیکن ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس نے عائشہ کا نام لینے سے تقیہ کیوں کیا اور ابوہریرہ اور انس بن مالک کے ناموں میں اس نے تقیہ کیوں نہ کیا؟ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ۔ اگر اس کے بعد رافضی معترض خاموش ہو جائے تو ہمیں یقین ہو گا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ قادر و قہار نے بری کر دیا اور اگر وہ رافضیکہے کہ میرے پاس اس کا جواب ہے۔ اس نے ابوہریرہ اور انس بن مالک کے نام صراحتاً لیے لیکن عائشہ کا نام اس لیے مخفی رکھا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔ تو ہم اسے کہیں گے: اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہی ہمارا مقصد ہے۔ تمہارے جھوٹ اور اس مظلومہ صدیقہ کی براء ت کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے اور جو روایت تم عبدالرزاق کی طرف منسوب کر کے نقل کرتے ہو وہ مصنف عبدالرزاق میں توہے نہیں اور نہ ہی اہل سنت کے نزدیک کسی معتبر حدیث کی کتاب میں یہ روایت موجود ہے۔
چونکہ یہ قصہ بھی نرا بہتان ، جھوٹا فسانہ اور اس قدر منکر ہے کہ اس کی اصلیت پر بحث کرنا بھی ہم فضول سمجھتے ہیں ، کیونکہ یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس شخص کے متعلق ایسی روایت کر سکتی ہیں جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے اور اس کے لیے اللہ کا محبوب ہونے کی گواہی دی ہو۔
ابوبکر خلال نے محمد بن علی سے روایت کی کہ اس نے کہا: ہمیں اثرم نے یہ حدیث سنائی، اس نے کہا کہ میں نے ابو عبداللہ سے یہ حدیث سنی اور اسے عقیل کی حدیث جو اس نے زہری سے اور اس نے بواسطہ عروہ اور اس نے بواسطہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیّدنا علی اور سیّدنا عباس رضی ا للہ عنہما کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور بواسطہ عقیل زہری سے روایت سنائی کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں خالد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ، یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں اور ان روایات سے لاعلمی کا اظہار کرتے
[1] فضل بن شاذان بن خلیل ابو محمد ازدی نیشاپوری علم کلام کا ماہر تھا اور امامیہ شیعہ کا فقیہ شمار ہوتا تھا۔ اس نے تقریباً ۱۸۰ کتابیں تصنیف کیں ۔ ان میں سے ’’الرد علی ابن کرام‘‘ اور ’’الایمان‘‘ ہیں ۔ ۲۶۰ ہجری میں فوت ہوا۔ (الاعلام للزرکلی، ج ۵، ص: ۱۴۹۔ معجم المؤلفین لعمر رضا کحالۃ، ج ۸، ص: ۶۹۔)
[2] الایضاح للفضل بن شاذان ازدی، ص: ۵۴۱۔