کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 40
کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ انھیں عمدہ ٹھکانہ اور بلند مقام عطا فرمائے اور ان کے لیے قبول عام لکھ دے۔
٭٭٭
الشیخ محمد بن ابراہیم السعیدي
(رئیس الدراسات الاسلامیہ بجامعۃ ام القریٰ مکۃ المکرمۃ السعودیۃ العربیۃ)
چونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام بیویوں سے زیادہ محبوب تھیں اور جس جلیل القدر صحابی کی وہ بیٹی ہیں مردوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں وہ سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ محترم تھے۔ اس لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت پر کوئی بھی عیب اور طعن دشمنانِ اسلام کو بہانہ مہیا کرتی ہے کہ اسلام کے اس بنیادی رکن کو منہدم کر دیا جائے جو دراصل عظمت، عزت اور جرأت و شجاعت کی علامت ہے اور اس شجاعت و ایمانی قوت کو قرآن کریم نے مومنوں کے دلوں کے اندر پیوست کر دیا جو اس عالم رنگ و بو کے اطراف و اکناف میں آباد ہیں ۔
گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات و صفات میں طعن و تشنیع نہ صرف قرآن کریم پر طعن و تشنیع ہے کہ جس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کا اعلان کیا ہے بلکہ یہ طعن اس رسول کی ذات اقدس و صفات اکمل پر بھی ہے جس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے والہانہ محبت کی اور انھیں تمام عورتوں سے اعلیٰ رتبہ دیا۔ وہ عزت و تکریم واقعہ افک سے پہلے بھی تھی اور اس کے بعد بھی برقرار رہی اور قیامت تک رہے گی۔ ان شاء اللّٰہ۔ یہ طعن سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی ہے کہ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی مملکت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم اور وسیع کیا۔
لہٰذا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دفاع کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پوری امت کے اتحاد کا دفاع ہو جائے اور اس امت کے نبی کا دفاع ہو جائے اور اس امت کی شریعت کا دفاع ہو جائے اور اس امت کی تاریخ کا دفاع ہو جائے۔
محترم قارئین! جو شاہکار آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ عظیم کام ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میں دعاگو ہوں کہ یہ شاہکار ام المومنین رضی اللہ عنہا کے دفاع کے ضمن میں ایک مضبوط و محکم ثبوت ثابت ہو ، نہ صرف ان کے دفاع میں بلکہ ان کے والدین اور خاوند امام المتقین و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں بھی۔