کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 398
چڑھائی: میں کہتا ہوں کہ عائشہ کی روایت اپنے باپ کی خلافت والی روایت کی طرح فاسد ہے۔[1]
مجلسی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کسی روایت پر کلام کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اس عورت کے غیر معصوم ہونے پر اتفاق ہے اور اس کی توثیق ہمارے اور مخالفین کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے، ہم ضرور اس کی مذمت اور اپنی روایات میں اس پر طعن و تشنیع کریں گے اور مزید یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کس قدر جھوٹ بولتی تھی۔ ہماری ذکر کردہ روایات صاحب بصارت و بصیرت کے لیے کافی ہوں گی۔‘‘[2]
شیعہ مصنف کی کتاب ’’وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ‘‘ کے مقدمہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مصنف لکھتا ہے کہ اس کا ایک کبیرہ گناہ یہ ہے کہ اس نے صراحت کے ساتھ احادیث وضع کیں ۔
زہری نے بواسطہ عروہ بن زبیر روایت کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے بتایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ اس وقت سیّدنا عباس اور علی رضی ا للہ عنہما آ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک یہ دونوں میری ملت یا میرے دین کے علاوہ پر مریں گے۔
عبدالرزاق[3] نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی کہ زہری کے پاس بواسطہ عروہ علی( رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں عائشہ( رضی اللہ عنہا ) سے مروی دو روایات تھیں اور اس کے قول کے مطابق دوسری میں عائشہ( رضی اللہ عنہا ) نے اسے بتایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی تو اسی لمحے عباس اور علی( رضی ا للہ عنہما ) آ رہے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! اگر تم ’’جہنمی مرد دیکھنا چاہتی ہو تو ان دو آنے والوں کو دیکھ لو۔ میں نے جونہی دیکھا تو وہ عباس اور علی بن ابی طالب( رضی ا للہ عنہما ) تھے۔‘‘
مصنف کہتا ہے: ’’یہ قرآن کے معارض ہے کیونکہ قرآن نے اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تطہیر کا اعلان کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی( رضی اللہ عنہ) ان سب میں سے پہلا شخص ہے۔‘‘[4]
[1] احقاق الحق، ص: ۳۶۰۔
[2] بحار الانوار للمجلسی، ج ۲۸، ص: ۶۰۔
[3] عبدالرزاق بن ہمام بن نافع، ابوبکر صنعانی اپنے وقت میں یمن کا بہت بڑا حافظ حدیث شمار ہوتا تھا اور بڑا عالم تھا۔ ۱۲۶ ہجری میں پیدا ہوا۔ ثقہ اور مشہور مصنف تھا۔ تاہم وہ اپنی آخری عمر میں نابینا ہو گیا اور اس کا حافظہ بھی کمزور ہو گیا۔ شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا۔ اس کی تصنیفات ’’المصنّف‘‘ اور ’’التفسیر‘‘ ہیں ۔ ۲۱۱ ہجری میں وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۹، ص: ۵۶۴۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۳، ص: ۴۴۴۔)
[4] وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ للمعاملی المقدمۃ، ج ۱، ص: ۳۵۔