کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 397
کے خصوصی دوستوں میں طعن کرنا اور انھیں ایسے افعال میں مطعون کرنا جن سے اللہ تعالیٰ نے انھیں بری کر دیا ہو۔ آخر میں ہم کہتے ہیں : ’’رافضیوں کا بہتان لگانا معمول کا کام ہے کیونکہ ان کے شبہات و شکوک ان کے دعووں سے زیادہ ہوتے ہیں جو ان کے جھوٹ اور دھوکا بازی کی واضح دلیل ہیں ۔ ۲۔ دوسرا بہتان اور اس کا ردّ: شیعہ کہتے ہیں :’’ بے شک عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتی تھیں ۔‘‘ روافض کہتے ہیں کہ ’’ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث قابل قبول نہیں ۔ کیونکہ اس کی روایت فاسد ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتی تھی۔‘‘ صدوق نے اپنی سند کے ذریعے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے کہ تین شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے تھے۔ ابوہریرہ، انس بن مالک اور ایک عورت( رضی اللہ عنہم )۔ [1] مذکورہ بالا خبر میں روافض نے جس ’’عورت‘‘ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کا یہ دعویٰ کہ یہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا کرتی تھی۔ اس سے ان کی مراد ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ اس کی تائید ان کی امہات الکتب سے ہوتی ہے۔ مثلاً ’’بحار الانوار‘‘ میں مذکورہ زہر والی جھوٹی خبر کے آخر میں لکھا ہوا ہے۔(اس سے مراد عائشہ) ہے۔[2] اسی طرح مجلسی نے ایک اور مقام پر لکھا ہے:’’ ((و امراۃ)) ....وہ عائشہ ہے۔‘‘[3] مصنف ’’بحار الانوار‘‘ نے خود ہی ’’عائشہ‘‘ کا لفظ بریکٹ میں لکھا ہے۔ تستری[4] نے صحیحین میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت نقل کی اور اس پر یوں تعلیق
[1] الخصال للصدوق، ص: ۱۹۰۔ نیز مندرجہ کتب الرافضہ کا مطالعہ بھی کریں ۔ الایضاح للفضل بن شاذان ازدی، ص: ۵۴۱۔ بحار الانوار للمجلسی، ج ۲، ص: ۲۱۷۔ [2] بحار الانوار للمجلسی، ج ۲، ص: ۲۱۷۔ [3] المصدر السابق، ج ۳۱، ص: ۱۰۸۔ [4] عبداللہ بن ضیاء الدین بن محمد شاہ تستری۔ ۹۵۶ ہجری میں پیدا ہوا۔ فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے علماء میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ہندوستان گیا تو اکبر بادشاہ نے اسے لاہور کا چیف جسٹس بنایا اور شرط یہ لگائی کہ وہ اپنے فیصلے میں مذاہب اربعہ سے باہر نہ نکلے گا۔ جب تک وہ اس شرط کی پابندی کرتا رہا اپنے عہدے پر برقرار رہا اور جب شرط توڑ دی تو کوڑوں سے اسے ۱۰۱۹ ہجری میں قتل کر دیا گیا۔ اس کی تصنیف ’’احقاق الحق‘‘ ہے۔ (الاعلام للزرکلی، ج ۸، ص: ۵۲۔)