کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 391
’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی مرض میں منہ کی ایک جانب سے دوا پلائی[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارے سے ہمیں کہہ رہے تھے: تم مجھے منہ کی ایک جانب سے دوا نہ پلاؤ۔‘‘ راوی کہتا ہے: ہم نے کہا: مریض دوا کو ناپسند کرتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا میں نے تمھیں منہ کی ایک جانب سے دوائی پلانے سے منع نہیں کیا تھا؟ راوی کہتا ہے: ہم نے کہا: مریض دوا سے نفرت کرتا ہے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے سامنے عباس کے علاوہ تم سب کو اس کے منہ کی ایک جانب سے دوا پلائی جائے، کیونکہ عباس تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوئے تھے۔‘‘[2] سیّدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بیمار ہوئے اور آپ کا مرض اتنا شدید ہو گیا کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپ کے منہ کی ایک جانب سے دوا پلانے کے بارے میں مشورہ کیا۔ چنانچہ سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طریقے سے دوا پلا دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو فرمایا: یہ کیا طریقہ ہے؟ ہم نے کہا: یہ ان عورتوں کا فعل ہے جو وہاں (سرزمین حبشہ) سے آئی ہیں ۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی ہجرت حبشہ میں شامل تھیں ۔ اے رسول اللہ! وہ کہنے لگیں : ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اندیشہ تھا کہ آپ کو درد قولنج[3] پڑ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے اس میں مبتلا نہ کرے گا۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس گھر میں موجود سب لوگوں کو اسی طرح دوا پلائی جائے، سوائے
[1] اللدود: جب مریض کو منہ کی ایک جانب (دائیں یا بائیں ) سے دوا پلائی جائے اور زبان اور باچھ کے درمیان دوا ڈالی جائے۔ قدیم عربوں میں یہ بات مشہور تھی کہ جسم خصوصاً پیٹ اور سینہ میں جس طرف درد ہو منہ کی اسی طرف سے دوا پلانے سے افاقہ ہوتا ہے۔ (تہذیب اللغۃ للازہری، ج ۱۴، ص: ۴۹۔ الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری، ج ۳، ص: ۸۵۔ لسان العرب لابن منظور، ج ۳، ص: ۳۹۰۔) [2] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۹۷۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۱۳۔ [3] ذَاتَ الْجَنْبِ: پہلو میں ہونے والا درد۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۱، ص: ۳۰۳۔ لسان العرب لابن منظور، ج ۱، ص: ۲۸۱۔) [4] لِیَقْرُفَنِی: یعنی اللہ تعالیٰ مجھے اس میں مبتلا کرنے کا قصد نہیں کرے گا۔ محدث سندھی کی یہ رائے ہے۔ (تحقیق مسند احمد: ۴۵؍۴۶۲۔)