کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 387
ہے اور مجھے منگولوں کے بادشاہ ’’خدا بندہ‘‘[1] جس کے لیے اس رافضی نے ’’امامت‘‘ کے مسئلہ پر ایک کتاب لکھی۔ جب شیعوں نے اسے یہ بتایا کہ ابوبکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھتا تھا اور وہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا۔ پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سفر ہجرت میں ابوبکر ہی اس کا ہمسفر تھا جو کہ خوف و خطرے کے لحاظ سے سب سے مشکل سفر تھا تو اس نے ایک نہایت گھٹیا جملہ کہا، لیکن رافضیوں کے ان خبیثانہ اقوال کا لازمی نتیجہ تھا جو وہ اسے سنا رہے تھے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان الزامات سے بری قرار دیا۔ لیکن ان ظالموں اور مفتریوں نے اسے ایسے ایسے جھوٹ سنائے کہ اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گھٹیا بات اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے کفریہ کلمہ کہا: شاید وہ کم عقل تھا۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک۔نقل کفر کفر بناشد اس میں شک نہیں کہ جو رافضیوں کے جھوٹے افسانوں سے متاثر ہو کر یہ کہہ رہا ہے وہ (رسول) کم عقل ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے یار غار صدیق رضی اللہ عنہ کو ان الزامات سے بری قرار دیا لہٰذا رافضیوں کی باتوں سے واضح ہو گیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی ہے۔‘‘[2] (بقول مصنّف) میں کہتا ہوں : اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی پر جھوٹے الزام سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام آتا ہے تو پھر اس شخص کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نے آپ سے دھوکا کیا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبت میں اسے دوسروں پر ترجیح دیتے ہوں اور ایام مرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گزارنا پسند کریں اور آپ کی وفات کے بعد اس کے کمرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا ہو؟
[1] خربند ابن ارغون بن ابغا۔ تاتاریوں کا بادشاہ تھا۔ یا اس کا نام خدابندا تھا۔ جب یہ بادشاہ بنا تو اسلام لے آیا اور اس کا نام محمد رکھا گیا اور کتاب و سنت کا متبع تھا اور اپنی سلطنت میں استعمال ہونے والے سکوں پر خلفائے اربعہ کے نام کندہ کروائے۔ یہاں تک کہ آوی نامی شیعہ اسے ملا وہ اس کے ساتھ ایسا چمٹا کہ اس تاتاری بادشاہ کو بھی شیعہ بنا ڈالا اور اس نے اپنے تمام نائبین کی طرف سب و شتم کرنے کا حکم لکھ دیا۔ ۷۱۷ ہجری میں فوت ہوا۔ (النجوم الزاہرۃ لیوسف بن تغری بردی، ج ۹، ص: ۲۳۹۔) [2] منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیۃ، ج ۸، ص: ۴۳۰۔