کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 372
روایات میں یہ واضح دلیل ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، علی و فاطمہ رضی ا للہ عنہما کے درمیان نہایت شفاف روابط تھے۔
۳۔ اپنے گھر میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دینا:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں دفن کرنے کی اجازت دینے سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظیم منقبت ظاہر ہوتی ہے۔
ابن ابی الحدید لکھتا ہے: ’’روایت میں ہے کہ جب ان سے ان کے گھر میں دفن کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو انھوں نے اسے منظور کر لیا۔ اس واقعہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی منقبت نمایاں ہے۔‘‘[1]
۴۔ اہل تشیع کی گواہی کہ ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جنتی ہیں ‘‘:
شیعوں کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی توبہ اور اس کے جنتی ہونے کی گواہی ملتی ہے۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے:’’ البتہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی توبہ مقبول ہے اور ان کی توبہ کی روایات طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما کی توبہ والی روایات سے بہت زیادہ ہیں ۔‘‘[2]
وہ کہتا ہے کہ ’’یہ تمام فصل عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے خاص ہے اور ہمارے اصحاب کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس نے جو کچھ کیا وہ اس کی خطا تھی۔ پھر اس نے توبہ کر لی اور توبہ کر کے اس نے وفات پائی اور وہ اہل جنت سے ہے۔‘‘[3]
۵۔بعض ائمہ شیعہ نے اپنی بیٹیوں کا نام عائشہ رکھا:
شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ بن جعفر صادق[4] جن کا لقب کاظم[5] ہے، انھوں نے اپنی ایک بیٹی کا نام عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھا۔[6]
[1] شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۶، ص: ۵۱۔
[2] المصدر السابق، ج ۱۷، ص: ۲۵۴۔
[3] شرح نہج البلاغۃ، ج ۶، ص: ۲۱۴۔
[4] موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب۔ ابو الحسن ہاشمی۔ انھیں کاظم کہا جاتا ہے۔ ثقہ تھے اور اپنے وقت میں مسلمانوں کے امام شمار ہوتے تھے۔ ۱۲۸ ہجری میں پیدا ہوئے اپنے وقت کے مشہور عابد تھے اور دلیر علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مامون الرشید نے انھیں قید میں ڈالا اور وہ اپنی قید میں ہی ۱۸۳ ہجری میں فوت ہو گئے۔یہ درحقیقت اہل سنت کے امام تھے۔اہل بیت کے سرخیل تھے۔ حضراتِ صحابہ اور امہات المؤمنین کی کردار کشی کرنے والوں کا ان کے ساتھ کیا تعلق واسطہ؟ ائمہ اہل بیت اس تمام بدزبانی اور یاوہ گوئی سے بری ہیں جو روافض اور شیعہ بالخصوص اثنا عشری صحابہ کرام اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کرتے ہیں ۔
[5] سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۶، ص: ۲۷۰۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۵، ص: ۵۶۰۔
[6] الارشاد للمفید، ج ۲، ص: ۳۰۲۔ و الفصول المہمۃ لعبد الحسین الموسوی، ص: ۲۴۲۔ و کشف الغمۃ للاربلی، ج ۳، ص: ۲۶۔ ^ الارشاد للمفید، ج ۲، ص: ۲۴۴۔