کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 251
بکثرت فتاویٰ دیتے تھے: (۱) سیّدنا عمر بن خطاب، (۲) سیّدنا علی بن ابی طالب، (۳) سیّدنا عبداللہ بن مسعود، (۴) سیّدہ عائشہ ام المومنین، (۵) سیّدنا زید بن ثابت، (۶) سیّدنا عبداللہ بن عباس اور (۷) سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا درج بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے فتاویٰ سے ایک ضخیم مجلد تیار ہو سکتی ہے۔[1]
علامہ سخاوی[2] رحمہ اللہ نے لکھا:
’’صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے سات صحابہ بکثرت افتاء کے ساتھ مشہور ہوئے:
(۱) عمر، (۲) علی، (۳) ابن مسعود، (۴) ابن عمر، (۵) ابن عباس، (۶) زید بن ثابت، (۷) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہم ۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا ممکن ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے فتاویٰ سے ایک ضخیم مجلد تیار کر لی جائے۔[3]
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا:
’’وہ (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سیّدنا ابو بکر اور سیّدنا عمر رضی ا للہ عنہما کے اَدوارِ خلافت سے لے کر تاحیات فتاویٰ جاری کرتی رہیں ۔‘‘[4]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسائل دینیہ کے متعلق کسی بھی استفتائسے پریشان نہ ہوتیں اور نہ کسی قسم کی تنگی محسوس کرتی تھیں اور اگر کوئی خاص مسائل ہوتے تو وہ سوال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتیں اور جو خاص مسائل پوچھنے سے شرماتے تو ان کی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے تربیت کرتیں :
﴿ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ﴾ (الاحزاب: ۵۳)
’’اور اللہ حق سے شرم نہیں کرتا۔‘‘
وہ سائل کو اطمینان دلاتیں اور کہتی تھیں میں تیری ماں ہوں تو مجھ سے وہ مسئلہ پوچھنے سے مت شرم کر
[1] اعلام الموقعین عن رب العٰلمین لابن قیم الجوزیۃ، ج ۱، ص: ۱۵۔
[2] یہ محمد بن عبدالرحمن بن محمد ابو الخیر سخاوی شافعی المذہب ہیں ۔ ۸۳۱ ہجری میں پیدا ہوے۔ فقہ، علوم لغت اور قراء ات قرآنیہ میں رسوخ حاصل کیا پھر علوم حدیث کی طرف توجہ کی تو خداداد صلاحیتوں کے ساتھ جیسے قراء ۃ اور قوت حافظہ کے ذریعے ڈھیر ساری مرویات جمع کر لیں ۔ ان کی مشہور تصنیف ’’فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث‘‘ ہے۔ ۹۰۲ ہجری میں وفات پائی۔
[3] فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للسخاوی، ج ۳، ص: ۱۱۷۔
[4] اسعاف المبطأ برجال المؤطأ للسیوطی، ص: ۳۵۔