کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 249
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر نہ ہو یا وہ منسوخ ہو چکا ہو تو شاید کوئی صحابی لاعلمی میں کسی صحیح حدیث کے برخلاف کچھ کہہ دے۔ ایسے میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث کو اسی صحابی یا صحابیہ کی روایت پر پیش کرتیں جس کے متعلق غالب ظن یہ ہوتا کہ اس سے حقیقت مخفی نہیں ہو گی۔ اگر واقعی کوئی فعل یا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا ہو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ خاص معاملات جو امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ خاص تھے یا وہ امور جو خاوند اور بیوی کے درمیان خاص ہوتے ہیں ۔[1] چوتھا نکتہ:.... سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقہ و فتاویٰ کے ساتھ گہرا شغف سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اگر تمام مسلمان خواتین میں سے سب بڑی فقیہہ اور عالمہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ بلکہ تمام صحابہ میں بڑی فقیہہ تھیں ۔ عطاء رحمہ اللہ نے کہا: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے زیادہ فقیہہ، زیادہ عالمہ اور اکثر مسائل میں زیادہ احسن رائے والی خاتون تھیں ۔[2] شیخ ابو اسحق شیرازی[3] نے یہ روایت اپنی کتاب طبقات الفقہاء میں صحابہ فقہاء کے ضمن میں نقل کی۔[4] ابن حزم رحمہ اللہ نے جب ان صحابہ کا ذکر کیا جن سے فتاویٰ منقول ہیں تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سب سے پہلے تذکرہ کیا۔[5] علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی، ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مطلق طور پر امت کی تمام خواتین میں سے زیادہ فقیہہ ہیں ۔‘‘[6]
[1] السیّدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا و توثیقہا للسنۃ لجیہان فوزی، ص: ۸۱۔ [2] اسے لالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، ج ۸، ص ۱۵۲۱، حدیث نمبر: ۲۷۶۲ میں روایت کیا۔ مستدرک حاکم، ج ۴، ص ۱۵، حدیث نمبر: ۶۷۴۸ اور ذہبی نے التلخیص میں اس روایت پر سکوت اختیار کیا۔ [3] یہ ابراہیم بن علی بن یوسف ابو اسحاق شیرازی شافعی ہیں ۔ ۳۹۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علم و عمل اور زہد و ورع میں شیخ الاسلام کہلائے۔ بطور حازق مناظر مشہور ہوئے۔ ان کے وزیر نظام الملک طوسی نے مدرسہ نظامیہ بنایا۔ ان کی تصنیفات میں ’’التنبیہ‘‘ اور ’’اللمع‘‘ مشہور ہیں ۔ ۴۷۶ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۸، ص: ۴۵۲۔ طبقات الشافعیۃ للسبکی، ج ۴، ص: ۲۱۵۔) [4] طبقات الفقہاء لابی اسحق شیرازی، ص: ۴۷۔ الاجابۃ لا یراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۵۹۔ [5] جوامع السیرۃ لابن حزم: ۳۱۹۔ الاجابۃ لا یراد ....، ص: ۵۹۔ [6] سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۳۵۔