کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 246
اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو درایت نصوص (چھان پھٹک) کا بھی خصوصی ملکہ تھا۔ بلاشک و شبہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت صرف کثرت روایت ہی میں نہیں بلکہ وہ خصوصیت جو انھیں دوسرے صحابہ سے ممتاز کرتی ہے وہ مطالعہ کی گہرائی ، باریک بینی اور دقیق فہم ہے نیز فقہ المسائل اور استنباط میں ان کی قوت اجتہاد اور ان کا عمیق ادراک ہے۔ درج بالا خصوصیات کے ساتھ ساتھ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی ایک اور منفرد خصوصیت بھی ہے کہ وہ نصوص سے مستنبط حکم ہی بیان نہیں کرتیں بلکہ وہ اس حکم کی علّتیں ، اس کی حکمتیں بھی بیان کرتی ہیں اور اس کی مصلحتوں کی تشریح بھی کرتی ہیں ۔ ان سے کوئی بھی شرعی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ اس طرح جواب دیتیں کہ سائل مطمئن ہو جاتا اور اس کے ذہن میں وہ حکم شرعی راسخ ہوتا اور وہ اس حکم کی مشروعیت پر مطمئن ہو جاتا۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے واضح دلیل غسل جمعہ کا مسئلہ ہے۔ صحیح بخاری کی سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما ، سیّدنا ابو سعید خدری[1] رضی اللہ عنہ اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی متواتر درج ذیل تین روایات درج کی جاتی ہیں تاکہ ان کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔ ۱۔سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَنْ جَائَ مِنْکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ)) [2] ’’تم میں سے جو جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔‘‘ ۲۔سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ)) [3] ’’ہر بالغ پر جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے۔‘‘ ۳۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے لوگ اپنے اپنے گھروں اور مدینہ کی بالائی جانب سے جمعہ کے دن باری باری آتے تھے وہ گرد و غبار میں چل کر آتے تھے۔ ان کے بدن سے گردوغبار اور پسینے کی وجہ
[1] سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ : یہ سعد بن مالک بن سنان ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں بیعت رضوان (صلح حدیبیہ) کے موقع پر موجود تھے۔ بہت بڑے فقیہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بارہ غزوات میں شرکت کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث یاد کی تھیں ۔ ۶۳ ہجری کے قریب وفات پائی۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر رحمه اللّٰه، ج ۱، ص: ۱۸۱۔ الاصابۃ لابن حجر، ج ۳، ص: ۷۸۔) [2] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۸۹۴۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۸۴۴۔ [3] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۸۹۵۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۸۴۶۔