کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 240
احادیث روایت کی ہیں وہ چار ہیں : سیّدنا ابوہریرہ، سیّدنا عبداللہ بن عمر، سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔[1] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے : ’’سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی مرد و زن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اتنی کثرت سے روایت نہیں کیا جس قدر انھوں (یعنی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے روایت کیا۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تمام صحابہ سے زیادہ احادیث یاد تھیں اس حقیقت کا اعتراف روافض نے بھی کیا۔ چنانچہ ازدی (اللہ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے جس کا وہ مستحق ہے) نے کہا: ((حَفِظَتْ اَرْبَعِیْنَ اَلْفَ حَدِیْثٍ وَ مِنَ الذِّکْرِ آیَۃً تَنْسَاہَا)) ’’ان (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو چالیس ہزار احادیث یاد تھیں ۔ اگرچہ قرآن کریم کی وہ ایک آیت بھول گئی۔‘‘ یہ ایک قبیح استعارہ ہے (اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کرے) وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ ان (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے جنگ جمل میں شرکت کے وقت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھلا دیا: ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ ﴾ (الاحزاب: ۳۳) ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔‘‘ حسن آفندی بزاز موصلی[3] رحمہ اللہ نے اللہ کی توفیق سے کتنا خوبصورت جواب دیا ہے اور اس شعر کا کتنے حسین انداز میں ردّ کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : خَرَجَتْ نَصْرَۃً لِحَقٍّ حَثِیْثٍ بِاِجْتِہَادٍ لِلْمُؤْمِنِیْنَ مُغِیْثٍ فَبِذَا اَرُدُّ قَوْلَ جَنْبٍ خَبِیْثٍ حَفِظَتْ اَرْبَعِیْنَ اَلْفَ حَدِیْثٍ ’’وہ (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) اپنے اجتہاد کے بل بوتے پر فریاد کناں حقیقی مومنوں کی نصرت کے
[1] الاجابۃ لا یراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۵۹۔ [2] البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۱۱، ص: ۳۳۸۔ [3] یہ ملا حسن آفندی بزاز موصلی رحمہ اللہ ہیں ۔ ادیب اور صوفی تھے۔ موصل (عراق) میں ۱۲۶۱ہجری میں پیدا ہوئے۔ اشعار کہنے میں مشغول رہتے تھے۔ ماہِ ربیع الاوّل ۱۳۰۵ہجری میں فوت ہوئے۔ (حلیۃ البشر للبیطار، ج ۱، ص: ۵۰۱۔)