کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 239
کیا ہے۔[1]
امام سیوطی[2]رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بکثرت روایت کرنے والے سات صحابہ میں شمار کیا۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی یہ رائے ان اشعار میں واضح کی:
وَ الْمُکْثِرُوْنَ فِیْ رِوَایَۃِ الْاَثَرِ اَبُوْ ہُرَیَرَۃَ یَلِیْہِ ابْنُ عُمَرَ
وَ اَنَسٌ وَ الْبَحْرُ کَالْخُدْرِیِّ وَ جَابِرٌ وَ زَوْجَۃُ النَّبِیِّ رضی اللّٰه عنہم
’’حدیث کو کثرت سے روایت کرنے والوں میں سیّدنا ابوہریرہ، ابن عمر اور انس ہیں جب کہ ابو سعید خدری، جابر اور زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا)سمندر ہیں ۔‘‘[3]
حافظ ابو حفص میانشی[4] رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ایضاح ما لا یسع المحدث جہلہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’صحیحین میں احکام پر مشتمل بارہ سو احادیث مروی ہیں جن میں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی دونوں کتابوں کی مرویات تقریباً تین سو ہیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا احکام میں بہت کم روایت کرتی ہیں ۔‘‘[5]
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
’’ہم نے اپنی سند کے ذریعے بقی بن مخلد[6] رحمہ اللہ سے روایت کی کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دو ہزار دو سو دس(۲۲۱۰) احادیث روایت کیں اور جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں
[1] مرویات ام المومنین عائشۃ فی التفسیر، ص: ۹۔۱۰۔ لسعود بن عبداللّٰہ فنیسان۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۳۹۔
[2] یہ عبدالرحمن بن ابی بکر بن محمد ابو الفضل السیوطی الشافعی رحمہ اللہ ہیں ۔ ۸۴۹ ہجری میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ شیخونیہ میں تعلیم حاصل کی۔ جب چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو اپنے آپ کو انھوں نے عبادت اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے کم و بیش ۶۰۰ تصنیفات چھوڑیں ۔ ان کی مشہور تصنیفات ’’الاشباہ و النظائر‘‘ اور ’’تدریب الراوی‘‘ ہیں ۔ ۹۱۱ ہجری میں فوت ہوئے۔ (شذرات الذہب لابن العماد، ج ۸، ص: ۵۰۔ الاعلام للزرکلی، ج ۳، ص: ۳۰۱۔)
[3] الفیۃ السیوطی فی علم الحدیث، ص: ۱۰۸۔
[4] یہ عمر بن عبدالمجید بن عمر ابو حفص میانشی رحمہ اللہ ہیں ۔ مکہ کے قاضی اور وہاں کے بڑے شیخ اور خطیب تھے۔ عالم، زاہد اور ثقہ تھے۔ بے شمار لوگوں نے ان سے علم حاصل کیا۔ ان کی مشہور تصنیفات ’’ما لا یسع المحدث جہلہ‘‘ اور ’’الاختیار فی الملح و الاخبار‘‘ ہیں ۔ یہ ۵۸۱ھ میں فوت ہوئے۔ (التحفۃ اللطیفۃ للسخاوی، ج ۲، ص: ۳۴۸۔ الاعلام للزرکلی، ج ۵، ص: ۵۳۔)
[5] الاجابۃ لا یراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۵۹۔
[6] یہ بقی بن مخلد بن یزید ابو عبدالرحمن اندلسی قرطبی رحمہ اللہ ہیں ۔ اپنے وقت کے حدیث کے حافظ و امام اور شیخ الاسلام تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے ہی اندلس میں کثرت سے احادیث کی نشر و اشاعت کی بنیاد رکھی۔ یہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے عظیم مجاہد تھے۔ ان کی دو بے مثال مشہور تصنیفات ’’التفسیر‘‘ اور ’’المسند‘‘ ہیں ۔ یہ ۲۷۶ ہجری میں فوت ہوئے۔ (طبقات الحنابلۃ لابن ابی یعلی، ج ۱، ص: ۱۱۸۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲۵، ص: ۲۸۵۔)