کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 238
﴿ وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ (النساء: ۴) ’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو۔‘‘ اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا: ’’نحلۃ‘‘کا معنی ’’واجبۃ‘‘ ہے، یعنی عورتوں کے مہر کی ادائیگی تم پر واجب ہے۔ تیسرا نکتہ:....سنن نبویہ کے متعلق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سنت نبویہ کی روایت میں نہایت اہم کردار ہے۔ بلکہ وہ اکثر طور پر صحیح سنت کی توثیق بھی کرتی ہیں اور آپ اس میدان میں راہبر و قائدانہ صلاحیتوں سے متصف تھیں ۔ چونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریب تھیں ، اپنے شرف زوجیت کے سبب آپ کا بہت زیادہ وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرتا۔ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کچھ سن لیتیں جو دوسرے نہیں سن سکتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و کیفیات سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جس طرح باخبر تھیں کوئی دوسرا نہ تھا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت استفسار کرتیں اور آپ سے مسائل و معاملات کا فہم حاصل کرتیں ۔جو بات انھیں سمجھ نہ آتی وہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کر اپنی معلومات مکمل کرتی تھیں ۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے متعلق وہ روایات جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں دیگر صحابہ کی مرویات سے علیحدہ امتیاز اور پہچان رکھتی ہیں ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت قریب رہ کر سنتی تھیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تربیت پائی اور اپنا قیمتی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی گزارا۔[1] چنانچہ محمود بن لبید رحمہ اللہ سے روایت ہے ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات احادیث بکثرت یاد کر لیتیں اور سیّدہ عائشہ اور سیّدہ ام سلمہ رضی ا للہ عنہما اس میدان میں بے مثال ہیں ۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث روایت کیں ان کی تعداد ۲۲۱۰ ہے، جن میں ۱۷۴ روایات پر شیخین (بخاری و مسلم رحمہما اللہ) متفق ہیں ۔ ۵۴ روایات میں امام بخاری رحمہ اللہ منفرد ہیں اور بقیہ مرویات صحاح ستہ، سنن، معاجم اور مسانید وغیرہ میں موجود ہیں ۔ امام ابن حزم[3] رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بکثرت روایت کرنے والوں کے چوتھے مرتبہ میں شمار
[1] السیدۃ عائشۃ و توثیقہا للسنۃ لجیہان رفعت فوزی، ص: ۳۔۴۔ مفہوم ادا کیا گیا۔ [2] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔ [3] ابن حزم: علی بن احمد بن سعید ابو محمد اندلسی رحمہ اللہ ہیں ۔ اپنے وقت کے بحر ذخّار، متعدد علوم و فنون کے ماہر و حاذق، فقہ ظاہریہ کے علمبردار، حافظ حدیث ہیں ۔ ۳۸۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی مشہور تصنیفات میں سے ’’المحلی‘‘ اور ’’مراتب الاجماع‘‘ ہیں ۔ ۴۵۶ میں فوت ہوئے۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۸، ص: ۱۸۴۔ شذرات الذہب لابن العماد، ج ۳، ص: ۲۹۹۔