کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 236
سیّدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں اور انھیں اندیشہ ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں جدا کر دیں گے تو انھوں نے کہا: اے رسول اللہ! میری باری سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ پیشکش قبول کر لی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ہم کہتے تھے یہ آیت سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا اور ان جیسے معاملے والی عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بقول راوی شاید عروہ نے یہ کہا۔ ﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا﴾ (النساء: ۱۲۸) اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی بے رخی سے ڈرے ۔‘‘[1] ۴۔ لغوی تفسیر: قرآن کریم بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کی تفسیر کے اسالیب میں عربوں کے کلام کی معرفت کا اسلوب بھی ہے ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تفسیر کے میدان میں بھی عبور حاصل تھا۔ چونکہ وہ لغت اور ادب عربی کے شعر و نثر میں رسوخ رکھتی تھیں ۔ نیز ان کی بلاغت و فصاحت بھی معروف ہے۔ جیسا کہ اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ (البقرۃ: ۲۲۸) ’’اور وہ عورتیں جنھیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں ۔‘‘ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ’’قروء‘‘ کی تفسیر ’’طہر‘‘ سے کی اور قروء کا معنی حیض نہیں کیا،[2] اگرچہ لفظ
[1] سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۱۳۵۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۱۰۷، حدیث نمبر: ۲۴۸۰۹۔ اختصار کے ساتھ۔ امام طبرانی رحمہ اللہ نے اسے ج ۲۴، ص: ۳۱ میں روایت کیا ہے اور مستدرک حاکم ج ۲، ص: ۲۰۳ اور بیہقی، ج ۷، ص ۷۴، حدیث نمبر ۱۳۸۱۶۔ محمد بن عبدالہادی نے المحرر، حدیث نمبر: ۳۶۸ میں اس کی سند کو جید کہا اور محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے ’’الحدیث، ج ۴، ص: ۱۵۰‘‘ میں اسے روایت کیا۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ارشاد الفقیہ، ج ۲، ص: ۱۸۷ میں لکھا اس کی سند صحیح حسن ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری، ج ۹، ص: ۲۲۳ میں لکھا اور اس کے موصول ہونے میں ابن سعد نے ان کی متابعت کی ہے۔ سعید بن منصور نے اسے مرسل روایت کیا اور انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہیں کیا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۱۳۵ میں اسے حسن صحیح لکھا اور امام وادعی رحمہ اللہ نے الصحیح المسند، حدیث نمبر ۱۶۲۹ میں اسے حسن کہا ہے ۔ [2] موطا مالک، ج ۴، ص: ۸۳۰۔ شرح معانی الآثار، ج ۳، ص: ۴۱۔ سنن دار قطنی، ج ۱، ص: ۲۱۴۔ سنن کبری بیہقی، ج ۷، ص ۴۱۵، حدیث: ۱۵۷۷۹۔ ابن عبدالبر نے (التمھید، ج ۱۵، ص: ۹۵) پر اس کی سند کو صحیح کہا اور ابن حجر نے (بلوغ المرام، حدیث: ۳۳۴) میں اسے صحیح کہا ہے ۔