کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 234
’’اے عائشہ! تو اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر کیونکہ یہی ((اَلْغَاسِقِ اِذَا وَقَبَ))‘‘ [1]
اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال ہے:
﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾ (المومنون: ۶۰)
’’اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں ۔‘‘[2]
ان کا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق سوال:
﴿ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا﴾ (الانشقاق: ۸)
’’سو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا، نہایت آسان حساب۔‘‘
۳۔ تفسیر قرآن کی معرفت کے لیے اسباب نزول سے استفادہ :
قرآن مجید کی تفسیر سمجھنے میں اسباب نزول کی معرفت کا بہت اہم کردار ہے۔ اس سے مشکل مفاہیم و معانی جلد سمجھ آ جاتے ہیں اور بعض آیات میں جو اشکالات درپیش آتے ہیں انھیں حل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اسباب نزول کی وسیع معرفت حاصل تھی اور کیوں نہ ہوتی وہ تو نزول وحی کی شاہد تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسباب نزول کی معرفت کے لیے سوال کرتی رہتیں بلکہ متعدد آیات اسی سبب سے نازل ہوئیں ۔
میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق پوچھا:
﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾ (البقرۃ: ۱۵۸)
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی
[1] سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۳۳۶۶۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۲۱۵، حدیث نمبر: ۲۵۸۴۴۔ سنن کبری للنسائی، ج ۶، ص ۸۳، حدیث نمبر: ۱۰۱۳۷۔ مسند طیالسی، ص: ۲۰۸۔ تفسیر ابی یعلی، ج ۷، ص ۴۱۷، حدیث نمبر: ۴۴۴۰۔ مستدرک حاکم، ج ۲، ص: ۵۸۹۔ امام ترمذی اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۳۳۶۶ میں اسے حسن صحیح کہا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اسے المنثورات، حدیث نمبر: ۲۹۲ میں ضعیف کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الفتوحات الربانیۃ، ج ۴، ص: ۳۳۴ میں کہا ہے کہ یہ حسن غریب ہے ۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے مختصر المقاصد، ص: ۹۳ میں اسے صحیح کہا ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول کی تائید کی اور امام نووی رحمہ اللہ کے قول کی مخالفت کی اور الوادعی رحمہ اللہ نے الصحیح المسند، حدیث نمبر: ۱۶۳۴ میں اسے حسن کہا ہے۔
[2] اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔