کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 229
’’یہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کی طرف آگے نکلنے والے ہیں ۔‘‘[1] جب وحی کے متعلق انھیں کوئی مشکل پیش آتی اور کوئی چیز ان کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتیں تاکہ اس آیت کے متعلق ان کا اشکال ختم ہو جاتا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس خوبی نے انھیں علوم قرآن، اسبابِ نزول، موضوعات قرآن اور اس کے مقاصد کی معرفتِ تامہ عطا کی۔[2] ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں ، اسباب نزول الآیات اور میراث کے متعلق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فقہ والا یا اگر کسی کی رائے احتجاج کے قابل ہو تو ان سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔‘‘[3] اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہر چھوٹی بڑی دینی مشکل میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتی تھیں ۔ اسی طرح کسی تفسیری مسئلہ کو حل کرنے کے لیے یا اس ضمن میں اس کے متعلق کیے گئے ان سے کسی سوال کے جواب کے لیے قرآن کریم ہی تمام امور میں ان کا پہلا مرجع ہوتا تھا ۔ وہ صرف مسائل عقیدہ، فقہ اور احکام شرعیہ میں ہی قرآن کی طرف رجوع نہیں کرتی تھیں بلکہ زندگی کے تمام امور میں ان کا مرجع قرآن کریم ہی ہوتا تھا۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اخلاق اور آپ کے حسن سلوک کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے سائل کے جواب میں بیان فرمایا۔ اسی طرح تاریخی واقعات اور حوادث میں ان کا یہی اسلوب تھا۔ ایک بار کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
[1] سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۳۱۵۷۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۲۰۵، حدیث نمبر: ۲۵۷۴۶۔ مستدرک حاکم، ج ۲، ص: ۴۲۷۔ شعب الایمان للبیہقی، ج ۱، ص ۴۷۷، حدیث نمبر: ۷۶۲۔ امام حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں اور شیخین نے اسے روایت نہیں کیا ۔ ابن العربی نے اسے عارضۃ الاحوذی، ج ۶، ص: ۲۵۸ میں اور البانی نے صحیح سنن ترمذی میں اسے صحیح کہا ہے ۔ [2] تفسیر ام المومنین عائشہ لعبد اللہ ابو سعود بدر، ص: ۱۱۳۔ السیدۃ عائشۃ و توثیقہا للسنۃ لجیہان رفعت فوزی، ص: ۴۶۔۴۸۔ السیدۃ عائشۃ ام المومنین و عالمۃ نساء الاسلام لعبد الحمید طہماز، ص: ۱۸۲۔ موسوعۃ فقہ عائشۃ ام المومنین و حیاتہا و فقہہا لسعید فائز الدخیل، ص: ۸۳۔ [3] الطبقات الکبری، ج ۱، ص: ۳۷۵۔