کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 214
اور ایک روایت میں امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر اس امت کی سب عورتوں کا علم جمع کیا جائے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات علیہ السلام کے علوم بھی ہوں تو بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہو گا۔‘‘[1]
۸۔ ابن عبدالبر[2]رحمہ اللہ (ت: ۴۶۳ ہجری) فرماتے ہیں :
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے زمانے میں تین علوم میں بے مثال تھیں : علم فقہ، علم طب اور علم الشعر۔‘‘[3]
۹۔امام ذہبی رحمہ اللہ (ت: ۷۴۸ ہجری) فرماتے ہیں :
’’مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی نہیں بلکہ تمام عورتوں میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی عالمہ دکھائی نہیں دیتی۔‘‘[4]
۱۰۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ (ت: ۷۷۴ہجری) فرماتے ہیں :
’’صرف اس امت کی عورتوں میں ہی نہیں بلکہ تمام امتوں کی عورتوں میں ان سے زیادہ نہ کوئی عالمہ اور نہ ان سے زیادہ کوئی سمجھ دار عورت ہے۔‘‘[5]
نیز وہ فرماتے ہیں :
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صحابہ رضی اللہ عنہم سے متفرد ہیں ۔ ان کے علاوہ وہ مسائل کسی اور کے پاس نہ تھے بلکہ وہ مختلف مسائل میں راہ حق اختیارکرنے میں بھی منفرد ہیں اور ان کے خلاف جو
[1] السنۃ للخلال، ص: ۷۵۳۔ المعجم الکبیر للطبرانی، ص: ۲۹۹۔ مستدرک حاکم، ج ۴، ص: ۱۲، حدیث نمبر: ۶۷۳۴۔
[2] یہ یوسف بن عبداللہ بن محمد ابو عمر قرطبی مالکی رحمہ اللہ ہیں ۔ دیار اندلس میں شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور تھے۔ ۳۶۸ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علم حدیث کی تلاش میں نکلے اور اس میں مہارت تامہ حاصل کی۔ یہ دین پر شدت سے ثابت قدم، ثقہ، حجت اور تمام لوگوں میں ان کی شہرت بطور علامہ، متبحر، صاحب السنۃ و الاتباع معروف تھی۔ یہ شبونہ شہر کے قاضی مقرر ہوئے۔ ان کی مشہور تصنیف ’’التمھید‘‘ ہے۔ ۴۶۳ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۱۸، ص: ۱۵۳۔ شذرات الذہب لابن العماد، ج ۳، ص: ۳۱۳۔)
[3] الاجابۃ للزرکشی، ص: ۳۱۔
[4] سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۴۰۔
[5] البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۲، ص: ۴۳۱۔