کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 213
حافظات تھیں ۔ تاہم سیّدہ عائشہ اور سیّدہ ام سلمہ رضی ا للہ عنہما بے مثال تھیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عہد عمر اور عہد عثمان رضی ا للہ عنہما سے لے کر تا حیات متعدد مسائل میں فتویٰ دیتی رہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار اصحاب جیسے سیّدنا عمر اور سیّدنا عثمان رضی ا للہ عنہما ان کے پاس سنن کے متعلق استفسارات کے لیے اپنے قاصد بھیجا کرتے تھے۔‘‘[1] ۵۔امام شعبی[2] رحمہ اللہ (ت: ۱۰۳ ہجری) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم و فقاہت پر تعجب کرتے اور کہتے: ’’ادب نبوی کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے؟!‘‘[3] ۶۔ابو سلمہ بن عبدالرحمن[4] رحمہ اللہ (ت: ۱۰۴ ہجری) فرماتے ہیں : ’’میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑا سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم نہیں دیکھا اور ان سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا کہ جس کے لوگ محتاج ہوں اور آیات کے اسباب نزول اور فرائض کے جاننے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔‘‘[5] ۷۔امام زہری[6] رحمہ اللہ (ت ۱۲۵ ہجری) فرماتے ہیں : ’’اگر تمام جہانوں کی عورتوں کے علوم کو جمع کیا جائے اور اسے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم کے سامنے لایا جائے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم سب سے افضل ہو گا۔‘‘
[1] الطبقات الکبرٰی، ج ۲، حدیث: ۳۷۵۔ [2] یہ عامر بن شراحیل بن عبد ابو عمرو کوفی رحمہ اللہ ہیں ۔ کبار تابعین میں سے ہیں ۔ ۱۷ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے حدیث میں امام، حافظ، متعدد علوم کے ماہر، ثبت اور متقن گنے جاتے تھے۔ ابن اشعث کے ساتھ جنگ جماجم میں شریک ہوئے۔ پھر حجاج کی تلوار سے بچ گئے اور اس نے ان کو معاف کر دیا۔ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔ ۱۰۳ ہجری یا اس کے بعد وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۴، ص: ۲۹۴۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۶، ص: ۳۶۹۔) [3] سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۹۷۔ [4] یہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف زہری رحمہ اللہ ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام عبداللہ یا اسماعیل ہے اور یہ قول بھی ہے کہ ان کا نام ہی ان کی کنیت ہے۔ یہ بکثرت احادیث کو روایت کرنے والے اور اپنے وقت کے امام مجتہد اور علم کے متلاشی تھے۔ ۹۴ ہجری یا ۱۰۴ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۵، ص: ۸۸۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۶، ص: ۳۶۹۔) [5] الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج ۲، ص: ۲۷۶۔ [6] یہ محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن شہاب ابوبکر زہری رحمہ اللہ ہیں ۔ اپنے زمانے میں علم کے امام، اپنے وقت کے حافظ حدیث ہیں ۔ ۵۰ ہجری یا اس کے بعد پیدا ہوئے۔ احادیث صحاح ستہ کے علماء میں سب سے بڑے حافظ و عالم الحدیث تھے۔ سخاوت کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہیں ۔ ۱۲۵ ہجری کے لگ بھگ وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۵، ص: ۳۲۶۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۵، ص: ۲۸۴۔)