کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 211
چوتھا باب: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ پہلا مبحث:.... علمی مقام کے متعلق علماء کی آراء اور ان کے اسباب اور اس میں دو نکات ہیں : پہلا نکتہ: .... علماء کے اقوال و آراء ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلند علمی مقام و مرتبہ حاصل تھا، جس کی بنیاد پر وہ اپنے زمانے کی سب سے بڑی عالمہ تھیں اور تمام علمی مسائل کا اصل مرجع و مصدر تھیں ۔ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو مسئلہ مخفی ہوتا یا قرآن و حدیث کے سمجھنے میں جہاں بھی انھیں فقہ و استنباط کے لیے مشکل پیش آتی تو بلاشبہ وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس شافی جواب پاتے اور اپنے تمام استفسارات کا حل انھیں مل جاتا۔[1] ۱۔سیّدنا ابو موسیٰ اشعری[2] رضی اللہ عنہ کے بقول ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کسی حدیث میں کوئی مشکل آ پڑتی ہم اس کا کافی و شافی حل اور تسلی بخش جواب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پا لیتے۔[3] ۲۔ بقول قبیصہ بن ذویب[4] رحمہ اللہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑی عالمہ تھیں اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم
[1] السیدۃ عائشۃ و توثیقہا للسنۃ لجیہان رفعت فوزی، ص: ۴۰۔ [2] یہ عبداللہ بن قیس بن سلیم ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بصرہ کا گورنر بنایا۔ جنگ صفین کے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم (فیصل) مقرر ہوئے۔ نہایت خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ ۵۰ ہجری کے قریب وفات پائی۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر، ج ۱، ص: ۳۰۰۔ الاصابۃ لابن حجر، ج ۴، ص: ۲۱۱۔) [3] سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۳۸۸۳۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۷۹ پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ترمذی میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] قبیصہ بن ذویب (ت ۸۶ ہجری): یہ قبیصہ بن ذویب بن حلحلہ ابو سعید خزاعی مدنی تابعی کبیر ہیں ۔ اپنے وقت کے مشہور امام اور فقیہ تھے۔ ۸ یا ۱۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ثقہ اور مامون تھے۔ احادیث کثیرہ کے راوی ہیں ۔ خلیفہ عبدالملک کی طرف سے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۸۶ ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۴، ص: ۲۸۲۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۴، ص: ۵۳۷۔)