کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 207
سے محو ہو جاؤں ۔‘‘[1] یہاں ایک عجیب نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے قرآن کریم میں سیّدہ مریم بنت عمران رحمہ اللہ کی حکایت ﴿ يَالَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ﴾ (مریم: ۲۳)’’اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔‘‘ بیان ہوئی ہے ، اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا۔ یہ مشابہت اچانک پیدا نہیں ہوئی،بلکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ مریم رحمہ اللہ کے درمیان بہت بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً سیّدہ مریم رحمہ اللہ کا لقب صدیقہ ہے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے قول و فعل اور بزبان رحمن صدیقہ ہیں اور یہاں سے ہمارے لیے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں خواتین کی آزمائش میں مشابہت کیوں ہوئی؟ مریم رحمہ اللہ پر بھی بہتان تراشوں نے الزام لگایا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی بہتان تراشوں نے الزام لگایا۔ سبحان اللہ! مقدس کرداروں میں کتنے عجائب پنہاں ہیں ۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کس قدر متواضع تھیں اس کا اندازہ اس وصیت سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے مرض الموت میں عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما کو کی تھی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما سے فرمایا: تم مجھے ان کے ساتھ (میرے کمرے میں ) نہ دفنانا بلکہ میری بہنوں (دیگر امہات المومنین) کے ساتھ مجھے بقیع والے عام قبرستان میں دفن کرنا۔ میں نہیں چاہتی کہ (یہاں دفن ہو کر) ہمیشہ میری مدح و ثنا کی جائے۔[3] گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات انتہائی ناپسند تھی کہ ان کے بارے میں کہا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہیں ، اس عبارت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نفس کو حقیر ثابت کرتے ہوئے تواضع و انکساری کا اظہار فرمایا۔[4]
[1] صحیح بخاری: ۴۷۵۳۔ [2] حیاۃ ام المومنین عائشۃ لمحمود شلبی، ص: ۳۶۷۔ کچھ لفظی تغیر کے ساتھ۔ [3] مستدرک حاکم، ج ۴، ص: ۷۔ الطبقات الکبری، ج ۸، ص: ۷۴۔ سیراعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۹۳۔ [4] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (فتح الباری، ج ۳، ص: ۲۵۸۔) پر اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا یہ مفہوم ہے) کہ یہاں دفن ہونے کے سبب میری ثنا بیان ہو گی اور اس وجہ سے اسے میری خوبی اور فضیلت سمجھا جائے گا حالانکہ اس کا احتمال ہے کہ میں فی نفس الامر ایسی نہیں ہوں اور یہ الفاظ سیّدہ نے ازراہِ تواضع کہے اور اپنے نفس کو حقیر گردانا۔ جبکہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے وہاں ان کے دفن ہونے کی خواہش کے وقت تو یہ کہا تھا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لیے سوچی ہوئی تھی۔ گویا اس وقت ان کا اجتہاد تبدیل ہو گیا۔ یا جب انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست کے وقت کیا تھا اور یہ جنگ جمل میں شرکت سے پہلے تھا۔ لیکن اس جنگ میں شمولیت کے بعد خود ہی وہاں دفن ہونے کی خواہش ختم کر دی۔ اگرچہ جنگ جمل کے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے لڑنے والے سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بھی کہہ دیا تھا: بے شک وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کی بیوی ہے۔ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی، ج ۱، ص: ۱۲۴۴۔ عمدۃ القاری للعینی، ج ۸، ص: ۲۲۸۔)