کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 203
مٹا ڈالتے۔‘‘[1] ۲۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کو سعد[2]بن ابی وقاص کے جنازہ کے موقع پر جلدی جلدی وضو کرتے ہوئے دیکھا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اے عبدالرحمن! اپنا وضو مکمل کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((وَیْلٌ لِّلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ)) [3] ’’(خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کی وادی ہے۔‘‘ ۳۔ایک مرتبہ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حفصہ بنت عبدالرحمن پر باریک اوڑھنی دیکھی تو اسے خوب ڈانٹا اور فوراً اسے پھاڑ ڈالا اور اس کے بدلے اسے ایک موٹی چادر اوڑھا دی۔[4] ۴۔حمص یا شام کی کچھ عورتیں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو آپ رضی اللہ عنہا فوراً کہہ اٹھیں : کیا تمھی وہ عورتیں ہو جو اپنی عورتوں کو حمامات (اجتماعی غسل خانے) میں لے جاتی ہو۔ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَا مِنْ اِمْرَاَۃٍ تَضَعُ ثِیَابَہَا فِیْ غَیْرِ بَیْتِ زَوْجِہَا اِلَّا ہَتَکَتِ السَّتْرُ بَیْنَہَا وَ بَیْنَ رَبِّہَا)) [5] ’’جو بھی عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور رب کے
[1] مسند احمد، ج ۶، ص ۲۲۵، رقم: ۲۵۹۲۳۔ [2] یہ جلیل القدر صحابی سعد بن مالک بن اہیب ابو اسحاق قریشی ہیں ، اسلام لانے والے ساتویں صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ بالجنۃ میں سے ایک ہیں اور ان چھ میں سے بھی ایک ہیں جن کو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے خلافت کے لیے منتخب کر دیا تھا ۔ فاتح عراق اور مدائن کسریٰ ہیں ، اپنے وقت کے مستجاب الدعوات تھے۔ ۵۵ ہجری میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر، ج ۱، ص: ۱۸۲۔ الاصابۃ لابن حجر، ج ۳، ص: ۱۳۔) [3] صحیح مسلم: ۲۴۰۔ [4] الطبقات الکبری لابن سعد، ج ۸، ص: ۷۱۔ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (جلباب المرأۃ، ص: ۱۲۶) میں لکھا کہ اس کی سند کے راوی شیخین کی شرط کے مطابق ہیں ۔ البتہ اس کی سند میں ایک راویہ ام علقمہ کی طرح ہے جسے حجت نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس کی روایت کو بطور شاہد لیا جا سکتا ہے۔ (السیدہ عائشۃ ام المومنین و عالمۃ نساء العالمین لعبد الحمید طہماز، ص: ۱۷۲۔) [5] سنن ترمذی: ۲۸۰۳۔ سنن ابن ماجہ: ۳۰۳۶۔ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے اور ابن مفلح نے (الآداب الشرعیۃ، ج ۳، ص: ۳۲۵۔) میں اس کی سند کو عمدہ کہا ہے اور ہیثمی مکی نے اسے (الزواجر، ج ۱، ص: ۱۲۹۔) پر کہا کہ اس کے رواۃ صحیح کے رواۃ کی طرح ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے (صحیح سنن ترمذی: ۲۸۰۳۔) میں اسے صحیح کہا ہے ۔