کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 200
’’ہمارے شیخ و امام ابو الحجاج مزی[1] رحمہ اللہ نے اس کی کیا خوب توجیہ کی، لکھتے ہیں کہ شہداء زندہ ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا پختہ یقین ہونے کی یہ عمدہ مثال ہے۔‘‘[2]
اگر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فوت ہونے کے باوجود سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیا کا یہ عالم تھا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، کیونکہ انھوں نے تو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے جمع ہونے والوں سے بھی اپنے حیا کا اعلان کیا کہ ایک مرتبہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
((تُحْشَرُوْنَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا)) [3]
’’محشر میں تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن، غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
تو عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مرد و زن ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَ لْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یُہِمَّہُمْ ذَاکَ)) [4]
’’معاملہ اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہو گا کہ وہ اپنی نگاہوں کو کچھ اہمیت دیں ۔‘‘
اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کو مخاطب کر کے نصیحت فرمایا کرتی تھیں :
’’اے عورتو! تم اپنے خاوندوں کو کہا کرو کہ وہ پانی سے استنجا کیا کریں ، کیونکہ مجھے انھیں یہ کہتے ہوئے حیا آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے۔‘‘[5]
[1] یہ یوسف بن زکی بن عبدالرحمن ابو الحجاج مزی شافعی محدث شام اور اپنے وقت کے مشہور عالم و حافظ حدیث تھے۔ ۶۵۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ’’دار اشرفیۃ‘‘ میں کبار مشائخ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اپنے وقت میں رواۃ کے احوال میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کی مشہور تصانیف ’’تہذیب الکمال‘‘ اور ’’تحفۃ الاشراف‘‘ ہیں ۔ ۷۴۲ ہجری میں وفات پائی۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی، ج ۴، ص: ۱۹۳۔ طبقات الشافعیۃ للسبکی، ج ۱۰، ص: ۳۹۶)
[2] الإجابۃ لا یراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۶۸۔
[3] الغرل: بچے کی پیدائشی حالت جبکہ اس کے ختنے نہ ہوئے ہوں ۔ (غریب الحدیث لابن الجوزی، ج ۲، ص: ۱۵۴۔)
[4] صحیح بخاری: ۶۵۲۷۔ صحیح مسلم: ۲۸۵۹۔
[5] سنن الترمذی: ۱۹۔ سنن النسائی، ج ۱، ص: ۴۳۔ صحیح ابن حبان، ج ۴، ص ۲۹۰، رقم: ۱۴۴۳۔ امام ترمذی نے لکھا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ علامہ ابن دقیق العید نے (الامام، ج ۲، ص: ۵۳۷۔) پر لکھا ہے کہ اس روایت کے سب راوی شیخین کی شرط پر ثقہ ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے اسے (صحیح سنن الترمذی۔) میں صحیح کہا ہے اور الوادعی نے (الصحیح المسند: ۱۵۸۹۔) میں اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔