کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 199
آگ کو حرام کر دے گا۔‘‘[1]
۷۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا شرم و حیا کا پیکر :
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا شرم و حیا کا پیکر تھیں وہ خود فرماتی ہیں :
’’جس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے ابا جان مدفون تھے میں اس گھر میں داخل ہوتی اور اپنی اوڑھنی وغیرہ اتار دیتی اور سوچتی کہ یہاں صرف میرا شوہر اور میرے ابا جان ہی تو ہیں ، لیکن جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ مدفون ہوئے تو اللہ کی قسم! میں جب بھی اپنے گھر میں داخل ہوتی تو سختی سے اپنے اوپر اپنے کپڑے کس لیتی اور میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہوئے ایسے کرتی۔‘‘[2]
ایک روایت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’میں ہمیشہ اپنے گھر میں اپنی اوڑھنی اتار دیتی اور اپنے اوپر والے کپڑے رکھ دیتی یہاں تک کہ وہاں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا۔ تب سے میں مسلسل اپنے پورے لباس کا خیال رکھتی حتی کہ میں نے اپنے اور قبروں کے درمیان دیوار بنوا لی اس کے بعد مجھے اطمینان حاصل ہوا۔‘‘[3]
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ [4]لکھتے ہیں :
[1] مسند احمد، ج ۶، ص ۸۵، رقم: ۲۴۵۹۲۔ منذری رحمہ اللہ نے (الترغیب و الترہیب، ج ۲، ص: ۲۴۵) پر کہا ہے کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں اور (مجمع الزوائد، ج ۵، ص: ۲۷۸) پر ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا اس کے سب راوی ثقہ ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے (صحیح الجامع، حدیث: ۵۶۱۶) میں اسے صحیح کہا ہے۔
[2] مسند احمد، ج ۶، ص ۲۰۲، رقم: ۲۵۷۰۱۔ مستدرک حاکم، ج ۳، ص: ۶۳۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن دونوں نے اسے روایت نہیں کیا۔ (مجمع الزوائد، ج ۸، ص: ۲۹) پر ہیثمی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے (صحیح مشکوۃ المصابیح، حدیث: ۱۷۱۲) کی تخریج میں لکھا کہ اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔
[3] الطبقات الکبری لابن سعد، ج ۳، ص: ۳۶۴۔ تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، ج ۳، ص: ۹۴۵۔
[4] یہ اسماعیل بن عمر بن کثیر ابو الفداء شافعی المذہب دمشقی ہیں ۔ ۷۰۱ ہجری میں پیدا ہوئے۔ فقہ و تفسیر، علم الرجال و علل میں مہارت حاصل کی۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور حافظ حدیث مشہور ہیں ۔ ان کی مشہور تصانیف ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ اور ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ہیں ۔ یہ ۷۷۴ ہجری میں فوت ہوئے۔ (انباء الغمر لابن حجر رحمہ اللہ ، ج ۱، ص: ۳۹۔ ذیل تذکرۃ الحفاظ لابی المحاسن، ص: ۳۸۔)