کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 198
دوڑ دھوپ سے[1] وہ پانی کے مشکیزے[2]بھر بھر کر اپنی پشتوں پر لادے زخمی مجاہدین کو پلا رہی تھیں ۔ وہ دوبارہ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور مجاہدین کو پلاتی رہیں ۔‘‘[3](مفہوماً)
۲۔ غزوۂ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو ایک محفوظ قلعہ میں بھیج دیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قلعہ سے نکلیں اور دشمن پر حملہ کر دیا۔ چنانچہ خود فرماتی ہیں :
’’میں جنگ خندق والے دن (قلعہ سے) باہر نکلی اور لوگوں کے پاؤں کے نشانات پر چلنے لگی میں نے اپنے پیچھے آہٹ محسوس کی .... الحدیث۔‘‘[4]
۳۔ایک مرتبہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ان سے فرمایا:
((جِہَادُکُنَّ الْحَجُّ)) [5]
’’تمہارا جہاد حج ہے۔‘‘
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دلاتی رہتی تھیں ۔ ان کے ایک غلام نے اپنی آزادی کے لیے ان سے مکاتبت (قسطوں پر آزادی کا معاہدہ) کر لی۔ آخری بار جب وہ ادائیگی کے لیے ان کے پاس آیا تو اسے کہہ دیا کہ آج کے بعد تم میرے پاس نہیں آؤ گے، لہٰذا تمھیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ تم پر اللہ کے راستے میں جہاد فرض ہے۔ چونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
((مَا خَالَطَ قَلْبُ امْرِیٍٔ رَہَجَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارُ))
’’جو بندہ اپنے دل میں اللہ کی راہ میں لڑنے کے متعلق سوچے (خیال کرے) گا اللہ اس پر
[1] خَدَم: یعنی الخلخال: پازیب (النہایۃ فی غریب الحدیث، ج ۲، ص: ۱۵۔)
[2] تَنْقُزَانِ: الوثب: جلدی چلنا اور اچھلنا (فتح الباری، ج ۶، ص: ۷۸۔)
[3] صحیح بخاری: ۲۸۸۰۔ صحیح مسلم: ۱۸۱۱۔
[4] مسند احمد، ج ۶، ص ۱۴۱، رقم: ۲۵۱۴۰۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۷، ص ۳۷۳، رقم: ۲۸۷۵۔ صحیح ابن حبان،ج ۵، ص ۴۹۸، رقم: ۷۰۲۸۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۴، ص: ۱۲۵۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں ۔ (البدایۃ و النہایۃ، ج ۴، ص: ۱۲۵۔ مجمع الزوائد، ج ۶، ص: ۱۳۹) میں ہیثمی کہتے ہیں اس کی سند میں ایک راوی محمد بن عمرو بن علقمہ ہے اس کی حدیث حسن درجہ کی ہے۔ بقیہ رواۃ ثقہ ہیں اور البانی رحمہ اللہ نے (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ج ۱، ص: ۱۴۳) پر اس کی سند کو حسن لکھا ہے۔
[5] صحیح بخاری: ۲۸۷۵۔