کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 192
’’اللہ تعالیٰ لبید پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔‘‘
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کہا کرتے:
’’اللہ تعالیٰ ام المومنین پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھ لیتیں تو ان کا کیا حال ہوتا۔‘‘[1]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کی۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں :
(( مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم مُنْذَ قَدَمِ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامٍ بُرِّ ثَلَاثَ لَیَالٍ تَبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ۔))[2]
’’جب سے ہم مدینہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے آپ کی وفات تک کبھی تین دن متواتر گندم کی روٹی سیر ہو کر نہ کھائی۔‘‘
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہا یہ بھی فرماتی ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب بھی مجھے سیر ہو کر کھانا ملتا تو میں رونا چاہتی تو ضرور روتی اور آل محمدنے کبھی سیر ہو کر نہیں کھایا یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے ۔‘‘[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مختلف لوگ عطیات بھیجتے، لیکن آپ نے کبھی اپنے لیے ان کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھا فوراً وہ انھیں اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتیں اور نہ ہی کبھی اس نے دنیاوی مال و متاع پر بھروسہ کیا اور نہ ہی وہ ان سے مطمئن ہوتیں بلکہ وہ اس سب سے اپنے ہاتھ جھاڑتی تھیں ۔ کیونکہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پائی تھی اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش ہی اس نہج پر ہوئی تھی۔ چنانچہ جب آیتِ تخییر نازل ہوئی:
﴿ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ
[1] کتاب الجامع لمعمر بن راشد، ج ۱۱، ص: ۲۴۶۔ و التاریخ الاوسط للبخاری، ج ۱، ص: ۵۶۔ سنن أبی داؤد، کتاب الزہد: ۳۱۶۔ مصنف عبدالرزاق، ج ۱۱، ص: ۲۴۶۔ مصنف ابن أبی شیبۃ، ج ۸، ص: ۵۱۴۔ بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث للہیثمی لحارث ابن ابی اسامۃ، ج ۲، ص ۸۴۵، رقم: ۸۹۵۔ المجالسۃ و جواہر العلم لابی بکر دینوری، ج ۸، ص ۱۴۳، رقم: ۳۴۵۳۔ معجم الشیوخ للصیداوی، ص: ۱۰۳۔ معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، ج ۵، ص ۲۴۲۲، رقم: ۵۹۲۴۔
[2] صحیح بخاری: ۶۴۵۴۔ صحیح مسلم: ۲۹۷۰۔
[3] کتاب الزہد للامام احمد، ص: ۱۶۴۔ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم، ج ۲، ص: ۴۶۔