کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 191
قیمت یکمشت دے کر انھیں خریدا اور آزاد کر دیا۔[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کی تربیت آزادی دلانے کی فضیلت پر کی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس بنوتمیم کی ایک لڑکی بطور خادمہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
((اَعْتِقِیْہَا فَاِنَّہَا مِنْ وُلْدِ اِسْمَاعِیْلَ)) [2]
’’تم اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے ہے۔‘‘
۳۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زہد و ورع کی مثالیں :
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے کثرت صیام و قیام اور کثرت جود و سخا کے باوجود اپنی مدح و ثنا سے سخت نفرت کرتی تھیں اور ریا کے خوف سے اگر کسی موقع پر اپنی مدح ہوتے ہوئے سن لیتیں تو کہتیں : ’’کاش! میں بھولی بسری بن جاتی۔‘‘[3]
اکثر مواقع پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مشہور شاعر لبید[4] بن ربیعہ عامری رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا کرتیں :
ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
وَ بَقِیْتُ فِیْ خَلْفٍ کَجِلْدِ الْاَجْرَبِ
’’انسانیت کے ہمدرد و غمگسار تو یکے بعد دیگرے چلے گئے اور میں خارش زدہ جلد کی طرح بدنام لوگوں میں پیچھے رہ گیا۔‘‘[5]
نیز سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں :
[1] صحیح بخاری: ۲۵۶۵۔ صحیح مسلم: ۱۵۰۴۔
[2] صحیح بخاری، کتاب العتق، حدیث: ۲۵۴۳۔
[3] مصنف عبدالرزاق، ج ۱۱، ص: ۳۰۷۔ فضائل الصحابۃ للامام احمد، ج ۱، ص ۴۶۲، حدیث: ۷۵۰۔ سنن أبی داؤد، کتاب الزہد، ص ۲۷۹، حدیث: ۳۱۸۔ مسند الشامیین للطبرانی، ج ۴، ص ۲۰۱، حدیث: ۳۱۰۲۔ حلیۃ الاولیاء لابي نعیم، ج ۲، ص: ۴۵۔ شعب الایمان للبیہقی، ج ۴، ص ۴۸۶، حدیث: ۷۹۱۔
[4] لبید بن ربیعہ بن مالک ابو عقیل عامری زمانہ جاہلیت و اسلام کے مشہور شاعر ہیں ۔ جاہلیت میں مشہور جنگجو اور بہادر سپہ سالار تھے۔ اپنی قوم کے وفد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی شاعر کی سب سے سچی بات لبید کے یہ الفاظ ہیں : ’’خبردار! اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب کچھ باطل ہے۔ اور ہر نعمت بہرحال زائل ہونے والی ہے۔‘‘ وہ ۴۱ ہجری میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر، ج ۱، ص: ۴۱۴۔ الاصابۃ لابن حجر، ج ۵، ص: ۶۷۵۸۔)
[5] الخلف: برا جانشین۔ (الصحاح للجوہری، ج ۴، ص: ۱۳۵۴۔ دیوان لبید شرح طوسی، ص: ۵۵۔)