کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 188
تو مجھے اب ملامت نہ کر۔ اگر تو اس وقت مجھے یاد دلا دیتی تو میں ایسا ہی کرتی۔‘‘[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ایک مکان سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہا کو ایک لاکھ اسی ہزار درہم میں فروخت کیا اور جب تک وہ سب تقسیم نہ کر لیا اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اٹھیں ۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’ایک بار میں نے اپنی نئی قمیض زیب تن کی، میں خود اسے دیکھنے لگی اور وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ میرے ابا جان سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تم کیا دیکھ رہی ہو؟ بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں نہیں دیکھ رہا۔ میں نے کہا: اس کا کیا مطلب؟ انھوں نے فرمایا: کیا تمھیں علم نہیں جب بندے میں خود پسندی آ جاتی ہے تو اس کا رب عزوجل اس پر ناراض ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ زینت ترک کر دے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے فوراً اسے اتارا کر صدقہ کر دیا۔ چنانچہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اُمید ہے تمہارا یہ عمل اس فعل کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘[3] عطاء سے روایت ہے: ’’سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف ایک لاکھ درہم کا ایک ہار بھیجا۔ انھوں نے اسے امہات المومنین میں تقسیم کر دیا۔‘‘[4] سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما فرماتے ہیں : ’’میں نے دو عورتوں (سیّدہ عائشہ اور سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا ) سے بڑھ کر کوئی سخی نہ دیکھا۔ تاہم ان دونوں کی سخاوت کے انداز اپنے اپنے تھے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اپنے پاس تھوڑا تھوڑا مال جمع
[1] ابن سعد نے اسے (الطبقات الکبری، ج ۸، ص: ۶۷۔) پر، ابو نعیم نے (حلیۃ الاولیاء، ج ۲، ص: ۴۷۔) پر روایت کیا اور ذہبی نے اسے (سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۸۷۔) پر نقل کیا۔ [2] ((ما دامت)): یعنی ((ما قامت)) آپ رضی اللہ عنہا کھڑی نہ ہوئیں ۔ (فتح الباری لابن حجر، ج ۱، ص: ۱۲۶۔) اسے ابن سعد نے (الطبقات الکبری، ج ۸، ص: ۱۶۵۔) [3] ابو نعیم نے اسے (حلیۃ الاولیاء، ج ۱، ص: ۳۷۔) پر روایت کیا۔ [4] مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۶، ص: ۹۰۔ سیر اعلام النبلاء: ۲؍۱۸۷۔ عطاء: یہ عطاء بن اسلم بن صفوان ہیں ۔ اس کی کنیت ابو محمد ہے اور ولاء کے ذریعے یہ قریشی ہے اپنے وقت کے شیخ الاسلام، مکہ کے مفتی اعظم اور محدث شمار ہوتے تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پیدا ہوئے۔ علوم کثیرہ پر اسے دسترس حاصل تھی۔ زہد و عبادت میں بھی خاص مقام حاصل تھا۔ ۱۱۴ یا ۱۱۵ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۵، ص: ۷۸۔ شذرات الذہب لابن العماد، ج ۱، ص: ۱۴۱۔)