کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 187
ہو جاتی۔[1]
ان کی سخاوت اور فراخ دلی کی دلیل وہ روایت بھی ہے جو عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے روایت کی ہے:
’’سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف ایک لاکھ درہم بھیجے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے یہ مال فوراً تقسیم کر دیا اور کچھ بھی نہ رکھا، تو ان کی خادمہ سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا آپ روزہ سے ہیں کاش ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر مجھے یاد ہوتا تو میں ایسا ضرور کرتی۔‘‘[2]
عروہ رحمہ اللہ ہی سے روایت ہے:
’’میں نے انھیں ستر ہزار درہم صدقہ کرتے ہوئے دیکھا اور ان کی اپنی قمیض کو پیوند لگے ہوئے تھے۔‘‘[3]
ام ذرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے:
’’ابن زبیر رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مال سے بھرے دو بڑے تھیلے[4] بھیجے جن میں تقریباً ایک لاکھ درہم ضرور ہوں گے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فوراً ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں ۔ تو وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے لگیں ۔
بقول راوی جب شام ہوئی تو خادمہ سے کہا: اے لڑکی! میرے افطار کے لیے کچھ لے آؤ۔ امّ ذرّہ نے کہا: کیا آپ اتنا بھی نہ کر سکیں کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے اس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں اور اس کے ساتھ افطار کر لیتیں ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے کہا:
[1] صحیح بخاری: ۳۵۰۵۔
[2] ابن سعد نے اسے (الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۶۷) پر اور ابو نعیم نے (حلیۃ الاولیاء، ج ۲، ص: ۴۷) اور ذہبی نے (سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۸۷) پر روایت کیا ہے۔
[3] مطبوعہ نسخہ میں ((تُرْفَعُ)) ہے بقول محقق شاید خطا مطبعی ہے اور صحیح یہ ہے ((تُرْقَعُ)) یعنی ان کی سادگی کا یہ حال تھا کہ قمیض پر پیوند لگے تھے۔ (غریب الحدیث للحربی، ج ۲، ص: ۶۹۴۔ مشارق الانوار للقاضی عیاض، ج ۱، ص: ۲۵۶۔ النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۲، ص: ۱۱۴۔) احمد نے اسے (الزہد، ص: ۱۶۵۔) پر اور ابن سعد نے (الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۶۶۔) اور ابو نعیم نے (حلیۃ الاولیاء، ج ۲، ص: ۴۷۔) پر روایت کیا اور ذہبی نے اسے (سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۸۷۔) پر نقل کیا اور اسے صحیح کہا ہے۔
[4] الغرارۃ: اُون یا بکری کے بالوں کا بنا ہوا بڑا تھیلا۔ (لسان العرب لابن منظور، ج ۵، ص: ۱۶۔ تاج العروس للزبیدی، ج ۱۳، ص: ۲۲۶۔)