کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 185
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد متعدد مرتبہ حج کیا اور وہ مردوں کی موجودگی میں طواف نہ کرتیں بلکہ مردوں سے الگ تھلگ[1]ہو کر طواف کرتیں ۔ ان کے قریب نہ جاتی۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ: آئیے اے ام المومنین! ہم استلام (حجر اسود کا بوسہ) کر لیں ؟ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’تم چلی جاؤ‘‘ اور خود جانے سے انکار کر دیا۔[2] جب دن میں آپ طواف کا ارادہ کرتیں تو مطاف سے مردوں کو باہر نکال دیا جاتا۔[3]
صرف یہی نہیں بلکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایّام حج میں اپنی قیام گاہیں مختص کر لی تھیں ۔ ابتداء میں تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے عرفات کی حدود کے آخر میں وادی نمرہ میں قیام کرتیں ۔ لیکن جب وہاں لوگوں کا ازدہام ہو جاتا تو ان کا خیمہ اس جگہ سے بہت دور لگایا جاتا اور مقام ’’اراک‘‘[4] پر قیام کرتیں اور کبھی کبھار کوہ ثبیر[5]کے قرب و جوار میں قیام کرتی تھیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود بھی اور جو اِن کے ساتھ ہوتے وہ بھی ان کے خیمہ سے ہی تلبیہ پکارتے۔ جب وہ سوار ہو کر موقف کی طرف اپنا رخ کر لیتیں تو تلبیہ کہنا بند کر دیتیں اور ان کا معمول تھا کہ وہ حج کے بعد ماہ ذی الحجہ میں مکہ سے ہی عمرہ کرتی تھیں ۔ پھر یہ معمول چھوڑ دیا۔ اب وہ ماہ ذی الحجہ کے آخر میں جحفہ (میقات) میں چلی جاتیں اور ماہِ محرم کا چاند دیکھ کر عمرہ کی نیت کرتیں ۔[6]
وہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھتی تھیں ،پھر وقوف کرتیں یہاں تک کہ ان کے پاس سے لوگ واپس چلے جاتے اور زمین بالکل خالی ہو جاتی تب وہ پینے کے لیے کچھ منگوا کر اس سے روزہ کھول لیتیں ۔[7]
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مخصوص ایام شروع ہو گئے تو انتہائی افسردگی سے رو پڑیں کہ ان سے کچھ مناسک رہ جائیں گے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان الفاظ سے تسلی
[1] حَجَرَۃً: یعنی علیحدہ ہو کر۔ ایک طرف یا ایک کنارے پر۔ (شرح السنۃ للبغوی، ج ۷، ص: ۱۲۰۔)
[2] صحیح بخاری: ۱۶۱۸۔
[3] صحیح بخاری: ۱۶۱۸۔ اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں : ’’لیکن جب عورتیں بیت اللہ میں جاتیں اور مطاف میں پہنچتیں تو مردوں کو نکال دیا جاتا۔‘‘
[4] الأراک: عرفات میں شام کی جانب ایک بستی کا نام ہے۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا، ج ۲، ص: ۳۴۵۔)
[5] ثبیر: مکہ کا ایک مشہور پہاڑ۔ (النہایۃ، ج ۱، ص: ۲۰۷۔)
[6] مؤطا امام مالک رحمہ اللہ ، ج ۳، ص: ۴۸۹۔
[7] مؤطا امام مالک ج ۳، ص: ۵۵۰۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۳، ص: ۵۸۸۔ معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی: ۶؍۳۴۸۔ اس کی سند کو ابن حجر رحمہ اللہ نے (الدرایۃ، ج ۲، ص: ۲۳۔) میں صحیح کہا ہے۔