کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 184
گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے رمضان میں اعتکاف نہیں بیٹھے بلکہ شوال کے آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا۔‘‘[1] اس حدیث سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کا شوق ظاہر ہوتا ہے اور یہ کہ وہ عبادت میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا شب قدر پانے کی کتنی متمنی تھیں اور اس میں شدت سے ان کی عبادت کے شوق کا اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا کے متعلق پوچھا کرتی تھیں کہ اتفاقاً جب وہ شب قدر کو پا لیں تو وہ کون سی دعا کریں ۔ چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ : ’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بتائیں کہ اگر مجھے پتا چل جائے کہ شب قدر کون سی ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں ۔ فرمایا: ’’تو کہہ: ((اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ)) ’’اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا سخی ہے۔ معافی کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھے معاف فرما۔‘‘[2] جہاں تک حج کا معاملہ ہے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کی اتنی شدت سے آرزو مند رہتیں کہ وہ فوت ہونے سے ڈرتیں ۔ چونکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! کیا ہم (عورتیں ) آپ کے ساتھ غزوات میں جائیں اور جہاد کریں ؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’تمہارے لیے سب سے بہتر اور سب سے خوبصورت جہاد حج مبرور ہے۔‘‘ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’جب سے میں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں ، میں کبھی حج نہیں چھوڑوں گی۔‘‘[3]
[1] صحیح بخاری: ۳۵۱۳۔ سنن ابن ماجہ: ۳۱۱۹۔ [2] سنن ترمذی: ۳۵۱۳۔ سنن ابن ماجہ: ۳۱۱۹۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۱۷۱، حدیث: ۲۵۴۲۳۔ سنن کبرٰی للنسائی، ج ۴، ص ۴۰۷، حدیث: ۷۷۱۲۔ مستدرک حاکم، ج ۱، ص: ۷۱۲۔ شعب الایمان للبیہقی، ج ۳، ص ۳۳۸، حدیث: ۳۷۰۰۔ ترمذی نے کہا: حسن صحیح۔ علامہ نووی نے ’’الاذکار‘‘ کے ص: ۲۴۷ پر اس کی سند کو صحیح کہا اور (اعلام الموقعین لابن قیم، ج ۴، ص: ۲۴۹۔) میں صحیح کہا ہے۔ البانی رحمہ اللہ نے (صحیح سنن ترمذی: ۳۵۱۳) میں صحیح کہا ہے۔ الوادعی رحمہ اللہ نے (احادیث معلقۃ، ص: ۴۵۹۔) پر کہا بظاہر یہ حسن لگتی ہے لیکن دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا عبداللہ بن بریدہ کا عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ۔ پھر اس کی سند میں سفیان کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ [3] صحیح بخاری: ۱۸۶۱۔