کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 183
((اِنَّ صَوْمَ یَوْمِ عَرَفَۃَ یُکَفِّرُ الْعَامَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ))[1] ’’بے شک عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دوران سفر بھی روزے رکھا کرتی تھیں ۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے میں سفر میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ تھا۔ مکہ میں داخل ہونے تک انھوں نے روزے نہیں چھوڑے۔[2] قاسم رحمہ اللہ سے روایت ہے: ’’بے شک میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دوران سفر روزے رکھتے ہوئے دیکھا حالانکہ انھیں گرم لو کے تھپیڑوں نے کمزور کر دیا تھا۔‘‘[3]،[4] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھ اعتکاف بیٹھنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں اعتکاف کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر پڑھ لیتے تو اپنی اعتکاف والی جگہ پر چلے جاتے۔ بقول راوی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ تو ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا۔ جب سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو انھوں نے بھی اپنا خیمہ لگا لیا اور جب سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو پتا چلا تو انھوں نے بھی خیمہ لگا لیا، جب دوسرے دن صبح کی نماز پڑھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو چار خیمے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ آپ کو آپ کی ازواج مطہرات کے بارے میں بتایا گیاتو آپ نے پوچھا: ’’انھیں اس فعل پر کس چیز نے ابھارا؟ کیا وہ نیکی کرنا چاہتی ہیں ؟ تم انھیں اکھیڑ دو حتیٰ کہ میں انھیں نہ دیکھوں ۔‘‘[5] تمام خیمے اکھیڑ دئیے
[1] مسند احمد، ج ۶، ص ۱۲۸، حدیث: ۲۵۰۱۴۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۳، ص: ۱۵۔ [3] اَذْلَقَہُ السَّمُوْمُ: گرم لو کی لہروں نے اسے کمزور کر دیا۔ (تاج العروس، ج ۲۵، ص: ۳۲۱۔) [4] مصنف ابن ابی شیبۃ، ج ۳، ص: ۱۶۔ [5] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (فتح الباری، ج ۴، ص: ۲۷۶) میں لکھا ہے: ’’گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ ہو گیا کہ ازواج کو اس فعل پر ابھارنے والا اصل محرک بے جا مفاخرت ہے اور وہ رقابت ہے جس کی بنیاد خاوند کے متعلق غیرت ہوتی ہے۔ تاکہ ہر بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہے۔ اس طرح تو اعتکاف کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے یا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں سیّدہ عائشہ اور سیّدہ حفصہ رضی ا للہ عنہما کو اجازت دی تو یہ کام آسان ہو گا لیکن اس کا جو انجام ہوا وہ اچھا نہیں تھا کہ دیگر ازواج مطہرات بھی اسی تگ و دو میں مگن ہو گئیں ۔ اس طرح نمازیوں کے لیے مسجد میں جگہ ہی نہ رہی۔ یا آپ کے منع کرنے کا یہ سبب تھا کہ اگر آپ کی سب بیویاں مسجد میں اعتکاف بیٹھ گئیں تو آپ اپنے آپ کو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا محسوس کرتے اور ممکن تھا کہ وہ آپ کو عبادت کے لیے خلوت سے روک دیتیں جس سے عبادت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔