کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 182
اپنی مخصوص نفلی عبادت ادا کرنے سے پہلے اگر سو جاتیں تو اس کی قضا دیتیں ۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ’’قاسم بن محمد ان کے پاس نماز فجر سے پہلے گئے جبکہ وہ نماز پڑھ رہی تھیں ۔ قاسم نے ان سے پوچھا: یہ کون سی نماز ہے؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ’’میں رات کے وقت اپنی مقررہ عبادت نہ کر سکی تو میں اسے نہیں چھوڑوں گی یعنی ان کی قضا دوں گی۔‘‘[1]
اسی طرح وہ نفلی عبادات کی نصیحت کرتی تھیں خصوصاً قیام اللیل کی ترغیب دلاتی تھیں ۔
چنانچہ عبداللہ بن قیس سے روایت ہے:
’’مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’تم قیام اللیل کبھی ترک نہ کرو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں چھوڑتے تھے اور جب آپ بیمار ہو جاتے یا تھک جاتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے۔‘‘[2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کثرت سے روزے رکھا کرتیں ۔
عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ روزہ رکھتیں اور صرف عید الفطر اور عید الاضحی کے دو دنوں میں روزہ نہ رکھتیں ۔[3]
ایک روایت میں ہے: ’’بے شک سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے رکھتیں ۔‘‘[4]،[5]
بلکہ وہ شدید گرم دنوں میں بھی روزہ ترک نہ کرتیں ۔
ایک بار عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما عرفہ والے دن ان کے پاس گئے تو وہ روزہ سے تھیں اور اپنے اوپر پانی چھڑک رہی تھی۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاکہ آپ روزہ افطار کر دیں ۔ انھوں نے فرمایا: میں کیسے افطار کر دوں جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
[1] سنن الدارقطنی، ج ۱، ص: ۲۴۶۔
[2] سنن ابی داود: ۱۳۰۷۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۲۴۹، حدیث: ۲۶۱۵۷۔ مستدرک حاکم، ج ۱، ص: ۴۵۲۔ الشیخ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے (صحیح سنن ابی داود، حدیث: ۱۳۰۷) صحیح کہا اور وادعی نے (الصحیح المسند: ۱۶۱۸) میں کہا ہے: یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
[3] الطبقات الکبرٰی لابن سعد، ج ۴، ص: ۶۸۔
[4] وہ ہمیشہ روزے رکھتیں یعنی صرف ان دنوں میں روزہ نہ رکھتیں جس میں ان کے لیے روزہ رکھنا منع تھا جیسے عیدین کے دن اور حیض کے دن اس طرح اشکال ختم ہو جاتا ہے اور یہاں مراد یہی ہے کہ وہ کثرت سے روزے رکھتی تھیں ۔ (فتح الباری لابن حجر، ج ۴، ص: ۲۲۱۔ شرح مسلم للسیوطی، ج ۳، ص: ۲۴۵۔)
[5] الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۵۔ الصیام للفریابی، ص ۱۰۰، حدیث: ۱۳۱۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۸۷۔