کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 181
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قیام کرنے کی تفصیل بتاتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’میں ہر ماہ کی چودہ تاریخ[1] یا سال کی سب سے بڑی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کرتی۔ تو آپ سورۃ البقرۃ، النساء اور آل عمران پڑھتے۔ جب بھی آپ کسی خوشخبری والی آیت سے گزرتے تو آپ اس میں رغبت کرتے اور اس کے حصول کے لیے دعا کرتے اور جب کسی وعید والی آیت سے گزرتے تو آپ اس وعید سے بچنے کے لیے دعا کرتے اور اس سے پناہ طلب کرتے۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے کمرے میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کیا کرتی تھیں ۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی ا للہ عنہما سے مروی ہے: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آواز دی گئی : نماز باجماعت کے لیے آ جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے پھر سجدوں کے بعد آپ کھڑے ہو گئے پھر ایک رکعت میں دو رکوع کیے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں : میں نے اس دن کے رکوع اور سجدوں سے زیادہ طویل رکوع اور سجدے کبھی نہ کیے۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہمیشہ نوافل پڑھتی تھیں ۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتی تھیں ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتی تھیں : ((اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ مَا دُوْوِمَ عَلَیْہِ، وَ اِنْ قَلَّ۔)) ’’بے شک اللہ تعالیٰ کو وہی اعمال محبوب ترین ہیں جن پر دوام اختیار کیا جائے۔ اگرچہ وہ کم ہوں ۔‘‘ نیز سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل شروع کرتے تو اسے ہمیشہ کے لیے جاری کر دیتے۔‘‘[4]
[1] لیلۃ التمام: ہر مہینے کی چودھویں رات کیونکہ اس میں چاند پورا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال کی سب سے بڑی رات مراد ہے۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث، ج ۱، ص: ۵۳۶۔) [2] مسند احمد، ج ۶، ص: ۹۲۔ تفسیر ابی یعلٰی: ۴۸۴۲۔ حافظ نے اسے ’’نتائج الافکار‘‘ کی جلد ۳ ص: ۱۵۵ پر حسن کہا ہے اور البانی نے (صفۃ الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۶) میں کہا اس کی سند جید ہے۔ [3] صحیح بخاری: ۱۰۵۱۔ صحیح مسلم: ۲۱۵۲۔ [4] صحیح بخاری: ۵۸۶۱۔ صحیح مسلم: ۷۸۲۔